قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امورنے عورت مارچ پر اظہار برہمی کر دیا۔فائل فوٹو
 قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امورنے عورت مارچ پر اظہار برہمی کر دیا۔فائل فوٹو

عورت مارچ کے منتظمین طوائفوں کے بھی سر پرست نکلے

وجیہ احمدصدیقی:
پاکستان میں ’’عورت مارچ‘‘ کے منتظمین کا ایک ایجنڈا یہ بھی ہے کہ جسم فروش طوائفوں کو ’’جنسی کارکن‘‘ یا ’’سیکس ورکرز‘‘ کہا جائے۔

اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام UNDP کی 2012ء کی رپورٹ میں پاکستان کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ قومی حکمت عملی بنائے۔ تاکہ پاکستان کی ’’سیکس ورکرز‘‘ کو مانع حمل مصنوعات استعمال کرنے کا پابند بنایا جائے اور پولیس کو بھی پابند کیا جائے کہ انہیں ہراساں نہ کرے۔ قانون بنایا جائے کہ پولیس، سیکس ورکرز کو مانع حمل مصنوعات کے استعمال سے نہ روکے تاکہ انہیں ایڈز نہ ہوسکے۔

رپورٹ میں یہ شکوہ بھی ہے کہ پاکستان میں چونکہ شادی سے قبل تعلقات غیر قانونی ہیں۔ اس لیے سیکس ورکرز کو بہت مشکلات پیش آتی ہیں اور یہ مطالبہ بھی ہے کہ پاکستان اپنے یہاں سے حدود آرڈی ننس ختم کرے۔ یہ غم بھی ہے کہ یہاں قحبہ خانہ قائم کرنا غیر قانونی ہے۔ انہیں یہ معلوم ہے کہ پاکستان کے قانون میں جسم فروشی کی کوئی گنجائش نہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان کا اصرار یہ ہے کہ پاکستان میں جسم فروشی کے کاروبار کو قانونی تحفظ دیا جائے۔ یہ عالمی ادارے صرف جسم فروشی کے علم بردار نہیں، بلکہ اسلام کی تشریحات کہ کون مسلمان ہے اور کون مسلمان نہیں، وہ بھی خود ہی طے کرنا چاہتے ہیں۔

لندن سائوتھ بینک یونیورسٹی کی نادیہ امتیاز نے پاکستان کی قادیانی عورتوں پر تحقیقی مقالہ لکھا، جس میں اس کی مدد افغانستان، بھارت اور پاکستان کے ویمنز ریجنل نیٹ ورک نے کی ہے۔ اس میں بینا سرور، کشور سلطانہ، عارف رانا اور چلیسا سوڈرہولم شامل ہیں۔ اس رپورٹ میں دھوکا یہ دیا گیا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کو مجدد اور پیش گوئیاں کرنے والا مذہبی لیڈر کہا گیا ہے۔ یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ اس بد بخت نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ رپورٹ، مرزا غلام احمد قادیانی کو کاذب ماننے والے مسلمانوں کو ’’آرتھوڈوکس‘‘ قرار دیتی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے پیروکار، تمام مسلم مکاتب فکر کی رو اور پاکستان کے آئین کے مطابق مسلمان نہیں۔ پاکستان کے آئین میں بھی دوسری ترمیم کے ذریعے یہ واضح کردیا گیا ہے۔

اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ قادیانیوں پر ظلم و ستم کی ابتدا 1953ء سے ہوئی۔ جب 200 قادیانی قتل کیے گئے اور لاہور میں محدود مارشل لا لگایا گیا۔ یہ وہی مارشل لا ہے جس میں مولانا سید ابولاعلیٰ مودودی کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی اور دو ہزار سے زائد مسلمان شہید ہوئے تھے۔ اس وقت اکثر ڈپٹی کمشنر قادیانی یا قادیانی نواز تھے۔ یاد رہے کہ 1974ء میں بھی قادیانیوں نے مسلمانوں کو شہید کیا تھا۔ لیکن اس رپورٹ میں قادیانیوں کو ہی مظلوم ظاہر کیا جا رہا ہے۔ 1984ء کی اس ترمیم کی کہ، قادیانی، اسلامی شعائر کا نام استعمال کرکے مسلمانوں کو دھوکہ نہیں دے سکتے، مذمت کی گئی ہے۔ حالانکہ اس کا تعلق پاکستان کے آئین اور قانون سے ہے۔ آئین اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو عرف عام مجرم اور غدار کہا جاتا ہے۔ لیکن این جی اوز کے معاملے میں ہماری حکومتوں کا رویہ مختلف رہا ہے۔

اس پوری رپورٹ میں کہیں بھی یہ ثابت نہیں کیا جاسکا کہ قادیانی عورتوں پر کیا ظلم و ستم ہو رہا ہے؟ بس یہ کہا گیا ہے کہ ان سے بچے نہیں پڑھنا چاہتے، ایسی ہی درجنوں کہانیاں بیان کی گئی ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں نام نہاد حقوقِ نسواں کی این جی اوز کا اصل ایجنڈا خواتین کی بہبود نہیں۔ البتہ ایک حیرت انگیز ڈیولپمنٹ ہوئی ہے کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور نے عورت مارچ میں لگنے والے نعروں اور مطالبات پراظہار برہمی کرتے ہوئے وزارت داخلہ کو اس معاملے کی چھان بین کیلئے خط لکھنے کا متفقہ فیصلہ کر لیا۔ بدھ کو مولانا اسعد محمود کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور کا اجلاس ہوا۔

قائمہ کمیٹی نے عورت مارچ میں لگنے والے نعروں اور مطالبات پر اظہار برہمی کیا۔ چیئرمین کمیٹی مولانا اسد محمود نے کہا کہ جو پلے کارڈز نظر آئے، جو نعرے لگائے گئے، وہ دہرائے بھی نہیں جا سکتے۔ رکن کمیٹی شاہدہ اختر علی نے کہا کہ سوشل میڈیا پران خواتین کی ویڈیوز وائرل ہیں۔ رکن شگفتہ جُمانی نے بتایا کہ عورت مارچ کا مقصد یہ نہیں کہ بے حیائی پھیلائی جائے۔

ارکانِ کمیٹی کا کہنا تھا کہ اس بے حیائی پر حکومت سو رہی ہے اورعدالتیں بھی خاموش ہیں۔ کمیٹی نے وزارت داخلہ سے عورت مارچ میں شامل این جی اوز کی فہرست طلب کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بھی دیکھاجائے کہ ان این جی اوز کی فنڈنگ کہاں سے ہوتی ہے۔ کمیٹی نے وزارت داخلہ کو معاملے کی چھان بین کیلئے خط لکھنے کا متفقہ فیصلہ کر لیا۔ لیکن خط کب لکھا جائے گا اور اسی میٹنگ میں خط کیوں نہیں لکھ لیا گیا؟ اس بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔
سرکاری سطح پر چاہے وہ پیپلز پارٹی ہو یا پرویز مشرف کی حکومت، ان ادوار میں 1980ء کی دہائی میں نافذ ہونے والے اسلامی قوانین کیخلاف این جی اوز کی جانب سے کوششیں کی گئیں۔ ان کوششوں اور دباؤ کے نتیجے میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے ’نیشنل کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن‘ کی چیئرپرسن جسٹس (ر) ماجدہ رضوی کو حدود قوانین کا جائزہ لینے اور سفارشات مرتب کرنے کا فریضہ سونپا۔ اس کمیشن کے ارکان کو نامزد کرنے کا اختیار بھی پرویز مشرف کو حاصل تھا۔ کمیشن نے حدود قوانین کا اپنے طور پر جائزہ لیا اور حکومت کو سفارش کی کہ ان قوانین میں تبدیلیوں یا ترمیمات سے عورتوں کے حقوق پر پڑنے والے اثرات ختم نہیں ہوسکتے۔

اس لیے ان قوانین کو سرے سے ختم کر دینا مناسب ہے۔ کمیشن کے صرف دو ارکان نے اس سفارش کی مخالفت کی اور اس میں مناسب ترامیم کو ممکن قرار دیا۔ ویمن کمیشن کی سفارشات پریس میں آتے ہی ملک بھر میں ان سفارشات کے خلاف ردّعمل آیا تو یہ سلسلہ رکا۔ اس پر جسٹس (ر) ماجدہ رضوی نے اپنا جوابی ردّ عمل نہایت سخت الفاظ میں دیا اور اسی بات پر مصر رہیں کہ حدود قوانین سراسر غیر اسلامی ہیں۔