یہ حکومت جعلسازی سے آئی ہے ہر کام میں جعلسازی کرتی ہے ۔فائل فوٹو
یہ حکومت جعلسازی سے آئی ہے ہر کام میں جعلسازی کرتی ہے ۔فائل فوٹو

سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی پھر آمنے سامنے آ گئیں

سینیٹ الیکشن میں ساتھ ساتھ کھڑی ہونے والی اپوزیشن اتحاد کی دو بڑی جماعتیں ن لیگ اور پیپلز پارٹی سینیٹ کے اپوزیشن لیڈر کیلیے آمنے سامنے آ گئیں ۔

تفصیلات کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی نے سینیٹ میں 30 ارکان کی حمایت کے ساتھ یوسف رضا گیلانی کو اپوزیشن لیڈر بنانے کے لیے درخواست جمع کرا دی ہے جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن کا دعویٰ ہے کہ اسے 28 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے سید یوسف رضا گیلانی نے دیگر سینیٹرز کے ہمراہ جمعے کے روز چیئرمین سینیٹ کے پاس 30 سینیٹرز کے دستخطوں پر مبنی درخواست جمع کرائی ہے۔

پیپلز پارٹی کے اس اقدام پر ن لیگ کا رد عمل بھی سامنے آ گیاہے ، رکن قومی اسمبلی اور ن لیگ کے سینئر رہنما احسن اقبال نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ کچھ اچھا نہیں لگا ،مناسب نہیں لگا ، وہ چیئرمین جس کے خلاف عدالت میں دھاندلی سے جیتنے کا کیس ہے، اسی چیئرمین کے پاس عرضی لے کر جایا جائے کہ آپ ہمیں لیڈرآف اپوزیشن کا تقررنامہ دیں،باپ پارٹی کے سینیٹرز کو ملا کراگر لیڈرآف اپوزیشن کا عہدہ حاصل کیا جائے تو اس سے پی ڈی ایم کے مقاصد ، جدوجہد اور یقینا اپوزیشن کے اتحاد کو دھچکا لگا ہے ، جو مخصوص سینیٹرز جن کی تائید کے ساتھ مطلوبہ نمبر حاصل کیا گیاہے ، میں نہیں کہتا بلکہ پورا اسلام آباد جانتاہے کہ وہ کس کے کہنے پر ووٹ دیتے ہیں ۔

احسن اقبال کا کہناتھا کہ اس طرح کی مشکوک ٹرانزیکشن پی ڈی ایم کے اغراض و مقاصد کی شفاف سیاست کیلیے میرے خیال میں مناسب نہیں ہے، ایسا نہیں کیا جانا چاہیے تھا،اگر پیپلز پارٹی کیلیے لیڈر آف اپوزیشن کا یہ عہدہ اتنا ناگزیر تھا تو اگر وہ اپنی مجبوری نوازشریف کو بیان کرتے تو وہ خوشی کے ساتھ انہیں یہ عہدہ دے دیتے لیکن باپ پارٹی کے سینیٹرز کو ملا کر پی ڈی ایم کی جماعتوں کو اعتماد میں لیے بغیراس طرح کا اقدام یقینا مناسب نہیں ۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جاتی امراءمیں پی ڈی ایم کے اعزاز میں ناشتے کا اہتمام کیا گیا تھا جہاں سے پیپلز پارٹی کا وفد واپس روانہ ہو گیاہے ، یوسف رضا گیلانی کی بطوراپوزیشن لیڈر نامزدگی پر ن لیگ نے اظہار ناراضی کیاہے ، ن لیگی ذرائع کا کہناتھا کہ پی ڈی ایم کے مشاورتی اجلاس میں معاملے پر غور ہوگا اور پیپلز پارٹی کے فیصلے پر جلد باضابطہ رد عمل دیں گے۔