پابندی لگانے کیلیے 15 روز میں ریفرنس دائر کرنا لازم ہے- جسٹس (ر) شائق عثمانی۔فائل فوٹو
 پابندی لگانے کیلیے 15 روز میں ریفرنس دائر کرنا لازم ہے- جسٹس (ر) شائق عثمانی۔فائل فوٹو

’’تحریک لبیک پر پابندی کا فیصلہ صرف سپریم کورٹ کرسکتی ہے‘‘

نجم الحسن عارف:
سپریم کورٹ کے سابق جسٹس (ر) محمد شائق عثمانی کا کہنا ہے کہ تحریک لبیک کے خلاف اینٹی ٹیررسٹ ایکٹ کے تحت پابندی لگائی گئی ہے۔ لیکن بادی النظر میں تحریک لبیک کی کوئی کارروائی اس زمرے میں آتی ہے اور نہ ہی اس نے اب تک بظاہر ایسا کوئی کام کیا ہے، جو ملکی سلامتی کے خلاف ہو۔ تحریک لبیک کے نظریات میں ملکی سلامتی کیلئے چیلنج نہیں ہے۔ پابندی لگانے کا حکومتی اعلان تو سامنے آیا ہے، مگر اس کا مطلب نہیں کہ فوری طور پر پابندی لگ گئی۔ پابندی کا فیصلہ حکومتی ریفرنس پر سپریم کورٹ ہی کر سکتی ہے۔ اگر سپریم کورٹ کو حکومت، دلائل اور شواہد سے مطمئن کرسکی تو پابندی لگ جائے گی، بصورت دیگر نہیں۔ جسٹس (ر) محمد شائق عثمانی کا خصوصی انٹرویو قارئین کی نذر ہے۔
س: الیکشن کمیشن میں باضابطہ طور پر رجسٹرڈ جماعت اور وہ بھی ایسی جماعت جس کا کوئی ایسا خطرناک کرمنل ریکارڈ نہ ہو۔ اس پر ریاست یا حکومت کِس قانون کے تحت پابندی لگا سکتی ہے؟
ج: جہاں تک میں دیکھ رہا ہوں، حکومت نے تحریک لبیک کے خلاف انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت پابندی ڈکلیئر کی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 17 میں ہر شہری کو جماعت بنانے یا کسی جماعت کا حصہ بننے کا حق ہے۔ یہ آرٹیکل جماعتوں کو بنانے کا حق تسلیم کرتا ہے مگر حکومت اگر یہ دیکھے کہ کسی جماعت نے ملکی سلامتی کے خلاف کام کیا ہے تو حکومت ایسی جماعت کے خلاف پابندی ڈکلیئر کرسکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اعلان تو کرسکتی ہے، پابندی لگا نہیں سکتی۔ پابندی لگانے یا نہ لگانے کا حق صرف سپریم کورٹ کے فیصلے پر منحصر ہے، جو وہ موجودہ حکومت کی جانب سے دائر کئے گئے ریفرنس پر دے گی۔ اب جبکہ حکومت نے تحریک لبیک پر پابندی کا اعلان کیا ہے۔ حکومت پر لازم ہے کہ وہ اپنے اس اعلان کو عملی شکل دلوانے کیلئے پندرہ دن کے اندر اندر سپریم کورٹ میں تحریک لبیک کے خلاف ایک ریفرنس دائر کرے۔ اس ریفرنس کا جائزہ سپریم کورٹ جائزہ لے گی۔ تب وہ فیصلہ کرے گی کہ واقعی معاملہ ایسا ہے کہ تحریک لبیک پر پابندی لگائی جائے یا اس کا جواز نہیں ہے۔ اس لئے میں کہوں گا کہ فی الحال تحریک لبیک کالعدم نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کا حتمی فیصلہ آنے تک وہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکتی ہے۔ تاہم جن سرگرمیوں سے امن عامہ کو خطرہ ہے، حکومت کو بھی حق حاصل ہوگا کہ ان سرگرمیوں کو قانون کے مطابق روکے۔
س: کیا آئین کے آرٹیکل 17 پر انسداد دہشت گردی ایکٹ حاوی ہوسکتا ہے؟
ج: حاوی نہیں ہوسکتا۔ مگر آئین کے مطابق بنائے گئے قانون کے تحت کارروائی کرنا پڑتی ہے۔ اس لئے حکومت نے اس ایکٹ کے تحریک لبیک کو کالعدم ڈکلیئر کیا ہے اور یہ کابینہ کی منظوری سے کیا گیا ہے۔ اسی چیز کو تو سپریم کورٹ نے دیکھنا ہے کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کا استعمال کرتے ہوئے حکومت نے جو اعلان کیا ہے وہ درست ہے یا نہیں۔ آیا تحریک لبیک کے خلاف ایسے شواہد و ریکارڈ موجود ہیں۔ اگر موجود ہے تو سپریم کورٹ پابندی لگا سکتی ہے، اگر نہیں تو ریفرنس واپس ختم ہوجائے گا۔
س: آپ اعلیٰ عدالتی عہدوں پر رہے۔ کیا آپ نے اب تک سامنے آنے والی اطلاعات میں ایسا کچھ دیکھا ہے جس سے بادی النظر میں تحریک لبیک کی ملکی سلامتی کے خلاف سرگرمیوں کے زمرے میں قرار دیا جاسکے؟
ج: پہلی بات تو یہ ہے کہ ریاست کی سلامتی کے خلاف کسی کی بھی اور کوئی بھی چیز قبول نہیں ہوسکتی۔ اس بارے میں تو دو رائے نہیں ہے۔ لیکن جہاں تک میرا مشاہدہ ہے یا جو چیزیں میڈیا کے ذریعے اب تک سامنے آسکی ہیں، ان کو دیکھتے ہوئے میں کہہ سکتا ہوں کہ تحریک لبیک نے ایسا کوئی کام نہیں کیا جو ملکی سلامتی کے خلاف ہو۔ ہاں اس کے نظریات اپنے ہیں۔ انہیں آپ کہہ سکتے ہیں کہ انتہائی نظریات ہیں۔ لیکن ہر کسی کو اپنی مرضی کے نظریے رکھنے کا حق ہے۔ دوسرا کوئی ان نظریات سے اتفاق یا اختلاف کا بھی حق رکھتا ہے۔ لیکن ان نظریات میں ریاستی سلامتی کے خلاف کوئی بات ابھی تک سامنے نہیں آئی۔ بادی النظر میں تحریک لبیک ملکی سلامتی کے خلاف کام نہیں کر رہی۔
س: اختیارات کا غلط استعمال تو پسندیدہ نہیں مانا جاتا۔ کیا قانون کا غلط استعمال کرنے پر حکومت کو کوئی سزا بھی دی جاسکتی ہے؟
ج: دیکھیں، اس معاملے میں اگر حکومت نے قانون یا اختیار کا کوئی غلط استعمال کیا ہوگا تو وہ سپریم کورٹ میں ریفرنس کی سماعت دوران لازماً آجائے گا۔ سپریم کورٹ، جس کی طرف سے بھی تجاوز ہوگا، اسے انتباہ بھی کرسکتی ہے۔ ریفرنس کا مقصد ہی یہ ہے کہ حکومت اپنے طور پر قانون کا استعمال کرتے ہوئے غیر جانبداری کے اصولوں کو پامال نہ کرسکے۔ سپریم کورٹ جب دیکھ لے گی تو پھر قانون کا غلط استعمال نہیں ہوسکے گا۔
س: کسی ’’پولیس مین‘‘ کے قتل اور عام شہری کے قتل میں قانون کوئی فرق کرتا ہے یا دونوں کی جان کی یکساں اہمیت اور عزت ہے؟
ج: اس سے فرق نہیں پڑتا کہ مرنے والے نے سادہ کپڑے پہن کھے تھے یا وردی میں ملبوس تھا۔ قانون کی نظر میں جان، دونوں کی قابل احترام ہے۔ اس کے خلاف کوئی بھی غیر قانونی ایکشن قابل قبول نہیں۔ ہاں یہ معاملہ الگ ہے کہ کوئی فرد اتفاقیہ قتل ہوگیا یا اسے عمداً قتل کیا گیا۔ ان دونوں صورتوں میں سزا الگ، الگ ہے۔ پولیس اور غیر پولیس والے کا فرق نہیں ہے۔ سب کی جانوں کی حفاظت کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے اور قانون اسی لئے بنایا جاتا ہے۔
س: کیا قتل ہونے والے افراد کے لواحقین کی طرف سے ایف آئی آر درج کرانے اور لاشوں کے پوسٹ مارٹم کے حق سے انکار کیا جاسکتا ہے؟ تحریک لبیک والے دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے مقتولین کی ایف آئی آرز درج نہیں کی جا رہیں اور نہ ہی پوسٹ مارٹم کیا جا رہا ہے؟
ج: یہ تو حکومت کی پراسیکوٹر کے عوام پر ذمہ داری ہے کہ اگر کہیں کوئی واقعہ پیش آئے تو فوری طور پر اس واقعے کی انوسٹی گیشن کا اہتمام کرے۔ حکومت اس میں کوتاہی نہیں کرسکتی۔ نہ خود کسی کی سزا معاف کرسکتی ہے، نہ جرم میں کمی کرسکتی ہے۔ البتہ کسی مقدمے میں اعلیٰ ترین عدالتوں سے فیصلے کے بعد بطور ریاستی سربراہ کے صدر کو حق ہے۔