عارف انجم:
قسط نمبر: 08
تاریخ طِبری میں ہے کہ صلح حدیبہ (6 ہجری ، 628 عیسوی) کے بعد جب آقائے دو جہاں ﷺ مدینہ واپس تشریف لائے تو فروغِِ اسلام کے لیے اپنے سفیروں کو مختلف ممالک کے بادشاہوں اور مختلف قبائل کے سرداروں کی طرف دعوتِ حق دے کر روانہ فرمایا۔ اس سلسلے میں ان صحابہ کرامؓ کو بطور سفیر منتخب کیا گیا جو متعلقہ علاقوں، اقوام کے رسم و رواج، زبان اور کلچر سے بخوبی واقف تھے۔ اس امر کا لحاظ اس لیے رکھا گیا تاکہ وہ اسلام کے پیغام کو بخوبی اْن اقوام اور ممالک تک پہنچا سکیں۔
تاریخی روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیشتر مکتوبِ مبارک 6 اور 7 ہجری میں بھیجے گئے۔ البتہ حبشہ کے بادشاہ نجاشی اول کو خط مبارک پانچ ہجری میں بھیجا جاچکا تھا۔ تاریخِ اسلام کے سب سے پہلے سفیر حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تھے جنہوں نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی اوّل کو حضور نبی اکرم ﷺ کا خط مبارک دیا۔ نجاشی اول نے آپؐ کا مکتوب پڑھ کر اسلام قبول کر لیا۔
حضرت عمرو بن امیہ کنانی رضی اللہ عنہ نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی ثانی کو 6 ہجری کے اَواخر میں نبی اکرم ﷺ کا خط دیا۔ اس نے خط لے کر اپنی آنکھوں پر رکھا، اپنے تخت سے اتر کر زمین پر بیٹھ گیا اور حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں اسلام کو قبول کیا۔
مصر کے حکمران مقوقس کے نام خط دے کر حضرت حاطب بن ابی بَلتعہ رضی اللہ عنہ کو 6 ہجری کے اواخر میں روانہ کیا گیا۔ یہ خط ترکی کے توپ کاپی میوزیم میں محفوظ ہے۔
حضرت حاطب،ؓ مقوقس کے دربار میں پہنچے تو فرمایا ’’( اس زمین پر ) تم سے پہلے ایک شخص گزرا ہے جو اپنے آپ کو رب اعلیٰ سمجھتا تھا۔ اللہ نے اسے آخر و اول کے لئے عبرت بنا دیا۔ پہلے تو اس کے ذریعے لوگوں سے انتقام لیا پھر خود اس کو انتقام کا نشانہ بنایا۔ لہٰذا دوسرے سے عبرت پکڑو ، ایسا نہ ہو کہ دوسرے تم سے عبرت پکڑیں۔‘‘
مقوقس نے کہا ’’ہمارا ایک دین ہے جسے ہم چھوڑ نہیں سکتے، جب تک کہ اس سے بہتر دین نہ مل جائے۔‘‘ حضرت حاطبؓ نے فرمایا ’’ہم تمہیں اسلام کی دعوت دیتے ہیں، جسے اللہ تعالیٰ نے تمام ادیان کے بدلے کافی بنا دیا ہے۔ دیکھو ! اس نبی مکرمؐ نے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی تو انؐ کے خلاف قریش سب سے زیادہ سخت ثابت ہوئے۔ یہود نے سب سے بڑھ کر دشمنی کی اور نصاریٰ سب سے زیادہ قریب رہے۔ میری عمر کی قسم ! جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے بشارت دی تھی، اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے حضرت محمد ﷺ کے لئے بشارت دی ہے۔ اور ہم تمہیں قرآن مجید کی دعوت اسی طرح دیتے ہیں جس طرح تم اہل تورات کو انجیل کی دعوت دیتے ہو۔ جو نبی جس قوم کو پا جاتا ہے وہ قوم اس کی امت ہو جاتی ہے اور اس پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ اس نبی اطاعت کرے، اور تم نے اس نبی کا عہد پا لیا ہے اور پھر ہم تمہیں دین مسیح سے روکتے نہیں، بلکہ ہم تو اسی کا حکم دیتے ہیں۔‘‘
مقوقس نے کہا ’’میں نے اس نبی کے معاملے پر غور کیا تو میں نے پایا کہ وہ کسی نا پسندیدہ بات کا حکم نہیں دیتے اور کسی پسندیدہ بات سے منع نہیں کرتے۔ وہ نہ گمراہ جادوگر ہیں نہ جھوٹے کاہن، بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ ان کے ساتھ نبوت کی یہ نشانی ہے کہ وہ پوشیدہ کو نکالتے اور سرگوشی کی خبر دیتے ہیں۔ میں مزید غورکروں گا۔‘‘
مقوقس نے نبی اکرم ﷺ کا خط لے کر (احترام کے ساتھ) ہاتھی دانت کی ایک ڈبیا میں رکھ دیا اور اپنی ایک لونڈی کے حوالے کر دیا۔ پھر عربی لکھنے والے ایک کاتب کو بلا کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حسب ذیل خط لکھوایا۔
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم محمد بن عبد اللہ کے لیے مقوقس عظیم قبط کی طرف سے۔ آپ پر سلام۔ اما بعد میں نے آپ کا خط پڑھا۔ اور اس میں آپ کی ذکر کی ہوئی بات اور دعوت کو سمجھا۔ مجھے معلوم ہے کہ ابھی ایک نبی کی آمد باقی ہے۔ میں سمجھتا تھا کہ وہ شام سے نمودار ہوگا۔ میں نے آپ کے قاصد کا اعزاز واکرام کیا۔ اور آپ کی خدمت میں دو لونڈیاں بھیج رہاہوں جنہیں قبطیوں میں بڑا مرتبہ حاصل ہے۔ اور کپڑے بھیج رہا ہوں۔ اور آپ کی سواری کے لیے ایک خچر بھی ہدیہ کر رہا ہوں اور آپ پر سلام۔‘‘ مقوقس نے اس پر کوئی اضافہ نہیں کیا اور اسلام نہیں لایا۔
دونوں لونڈیاں ماریہ اور سیرین تھیں۔ خچر کا نام دْلدل تھا۔ جو حضرت معاویہؓ کے زمانے تک باقی رہا۔
اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالی عنہا نبی اکرم ﷺ کے عقد میں آئیں اور ان سے آنحضور ﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم پیدا ہوئے جن کا کم سنی میں ہی انتقال ہوگیا تھا۔ حضرت ماریہ قبطیہؓ کا ازواج مطہرات جیسا احترام کیا جاتا تھا۔
سیرین، حضرت ماریہ قبطیہؓ کی ہمشیرہ تھیں۔ وہ حسان بن ثابتؓ مشہور صحابی وشاعر کے حبالہ عقد میں آئیں، جن کے بطن سے عبدالرحمان بن حسان پیدا ہوئے۔ سیرین، بڑی صابر اور شاکر تھیں۔
مقوقس، مصر کا حکمران ہونے کے باوجود رومی سلطنت کے ماتحت تھا۔ تاریخ ابن خلدون میں ہے کہ جب ہرقل روم کو مقوقس کے تحائف کی اطلاع ملی تو مقوقس کو معزول کر دیا۔ جب عمرو بن العاصؓ نے مصر فتح کیا تو اسے بحال کر دیا۔ وہ ہر بات مسلمانوں کے مشورے سے کرتا تھا۔
اس بات کی مغربی مورخین کی تحاریر سے کافی حد تک تصدیق ہوتی ہے۔ مقوقس کو مغربی مورخین سائرس آف الیگزینڈریا (سائرس اسکندریہ) کہتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ مقوقس، سائرس کا لقب تھا۔ مغربی مورخین کے مطابق مذہبی عقائد کے معاملے پر سائرس کو 637 عیسوی کے آپس پاس عیسائی زعما نے مطعون کیا تھا۔ مورس بیربرائر اپنی کتاب ’’قدیم مصر کی تاریخ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جب حضرت عمرِ فاروقؓ کے جرنیل عمروبن العاصؓ نے مصر کا محاصرہ کیا تو خطے کے دفاع کے لیے سائرس (مقوقس) کو ذمہ داری سونپی گئی۔ سائرس نے مسلمان فوج سے امن معاہدے شروع کردیئے، جن کی شرائط مسلمانوں کے حق میں تھیں۔ اس کے نتیجے میں رومن بادشاہ نے سائرس کو طلب کرکے اس پر مسلمان خلفیہ سے گٹھ جوڑ کا الزام عائد کیا۔ لیکن سائرس کو جلد ہی دوبارہ بحال کر دیا گیا۔ مورس کے مطابق سائرس مصر کو مسلمانوں کے ہاتھ میں جانے سے نہ بچا سکا اور 640 میں مسلمانوں نے مصر فتح کر لیا۔ سائرس یا مقوقس نے 641 میں مسلمانوں کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے۔ 642 میں وہ دنیا سے رخصت ہوگیا۔
مرنے کے برسوں بعد 649 اور 680 کی عیسائی مذہبی کانفرنسز میں سائرس کو عقیدے سے پھرنے والا قرار دے دیا گیا۔ (جاری ہے)
نبی آخرالزماں ﷺ کی جانب سے مصر و اسکندریہ کے حکمران مقوقس کو بھیجا گیا خط، توپ کاپی میوزیم میں محفوظ ہے۔ خطِ کوفی میں تحریر یہ مکتوب 16×19 سینٹی میٹر کے چمڑے پر تحریر گیا ہے۔ یہ خط 1850ء میں ایک فرانسیسی سیاح اور محقق بارتلمی کو مصر کے شہر سعید کے قریب اخمیم نامی عیسائی مانیسٹری سے ملا تھا۔ (مانیسٹری ایسی عیسائی خانقاہ کو کہا جاتا ہے جہاں نہ صرف گرجا گھر ہوتا ہے بلکہ پادری اور راہب وہیں مقیم رہتے ہیں اور مانیسٹری کی ملکیت زمینوں کو بروئے کار لاتے ہیں۔) مکتوبِ مبارک ایک قطبی بائبل کے اندر رکھا گیا تھا۔ جب اس بات کی شناخت ہوگئی کہ یہ حضرت محمد ﷺ کی جانب سے تحریر کردہ خط ہے تو بارتلمی نے قسطنطنیہ (استنبول) پہنچ کر یہ مکتوبِ مبارک عثمانی خلیفہ سلطان عبدالحمید کو پیش کیا۔ یاد رہے کہ یہ وہ وقت تھا جب سلطنت عثمانیہ کی شان و شوکت ابھی باقی تھی اور یورپی باشندے بخوشی اپنی خدمات سلطنت عثمانیہ کو پیش کرتے تھے۔
خط ملنے کے بعد سلطان عبدالحمید نے اسے سونے کے فریم میں محفوظ کرا دیا۔ خط مبارک کو سونے سے بنے ایک صندوق میں رکھا جاتا ہے جس پر خوبصورت نقش و نگار موجود ہیں۔ یہ خط اسی کمرے میں محفوظ ہے جہاں نبی اکرم ﷺ کی دیگر مقدس امانتیں رکھی گئی ہیں۔
وقت کے ساتھ خط کے چمڑے کا رنگ سیاہ پڑ چکا ہے اور اس کی تحریر پڑھنے کے لیے آنکھوں پر زور دینا پڑتا ہے۔ خط مبارک کی محض تصویر سے اس کی تحریر پڑھنا مشکل ہے۔ تاہم مکتوبِ مبارک کی بعض ایسی تصاویر موجود ہیں جنہیں سافٹ ویئر سے گزار کر تحریر کو واضح کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ خط کے ساتھ کاغذ پر اصل عربی تحریر بھی پیش کردی گئی ہے تاکہ عقیدت مند آسانی سے متن کو جان سکیں۔ خط مبارک کے بیچ میں کچھ حصے وقت کے ساتھ شکست و ریخت کا شکار ہوئے ہیں، لیکن مجموعی تحریر اب بھی سمجھی جا سکتی ہے۔
خط کا متن یہ ہے: (اردو ترجمہ)
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اللہ کے رسول محمد کی طرف سے مقوقس عظیم ِ قبط کے نام۔ اس پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے۔ اما بعد، میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ اسلام لاؤ سلامت رہوگے۔ اور اسلام لاؤ اللہ تمہیں دہرا اجر دے گا۔ لیکن اگر تم نے منہ موڑا تو تم پراہل ِ قبط کا بھی گناہ ہوگا۔ اے اہل ِکتاب۔ ایک ایسی بات کی طرف آجاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان میں برابر ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ اور سوائے اللہ کے کوئی کسی کو رب نہ بنائے۔ پس اگر وہ منہ موڑ یں تو کہہ دوکہ گواہ رہو ہم مسلمان ہیں۔
اس خط کا آخری حصہ سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 64 پر مبنی ہے۔ خط مبارک پر نبی اکرم ﷺ کی مہرِ مبارک بھی موجود ہے۔بعض غیر مستند روایات کے مطابق مقوقس کو بھیجا گیا خط سیدنا ابوبکرؓنے تحریر کیا تھا۔