سندھ ہائیکورٹ نے بارش کے دوران ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹ (ڈی ایچ اے) اور کلفٹن کے علاقے ڈوبنے سے متعلق درخواست کی سماعت پر ریمارکس میں کہا کہ شہر ڈوب گیا تھا کسی کو کوئی پرواہ نہیں۔
سندھ ہائیکورٹ میں بارش کے دوران ڈی ایچ اے اور کلفٹن کے علاقے ڈوبنے سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی۔
عدالت نے متعلقہ اداروں پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جو حال کے ایم سی اور کے ڈی اے کا ہے، ڈی ایچ اے اور کنٹونمنٹ بورڈ کا اس سے بھی برا حال ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ ڈوب جانے والے علاقوں میں مختلف این جی اوز لوگوں کی مدد کررہی تھیں۔
وکیل کنٹونمنٹ بورڈ کا کہنا تھا کہ بارشوں کے دوران شہباز کمرشل اور دیگر علاقوں کی نشاندہی کرلی گئی ہے جہاں سب سے زیادہ پانی جمع ہوا۔
عدالت نے دریافت کیا کہ وزیر اعلیٰ اور گورنر ہاؤس کے سامنے پانی بھر گیا تھا، سڑکوں سے پانی نکالنے کے پائپ کیوں نہیں لگا دیتے؟ عدالت نے ریمارکس دیے کہ شہر ڈوب گیا تھا کسی کو کوئی پرواہ نہیں، لوگوں کے گھر کئی کئی روز ڈوبے رہے، کسی نے کوئی مدد نہیں کی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ شہر ڈوب جاتا ہے، مستقبل کی کیا پلاننگ ہے؟ شہر کو کیسے بچانا ہے؟
عدالت نے ڈی ایچ اے اور کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن سے 4 جون کو تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔
عدالت نے حکم دیا کہ بتایا جائے مستقبل میں شہر کے پوش علاقوں کو ڈوبنے سے بچانے کیلئے کیا کیا اقدامات کررہے ہیں؟۔