مہنگائی اور معاشی تباہی کا ذمہ دار صرف اور صرف عمران خان نیازی ہے،فائل فوٹو
مہنگائی اور معاشی تباہی کا ذمہ دار صرف اور صرف عمران خان نیازی ہے،فائل فوٹو

شہباز شریف نے بجٹ پاس نہ ہونے کی دھمکی دیدی

اپوزیشن لیڈر شہبازشریف نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اگر لوگوں کی جیب خالی ہے تو بجٹ جعلی ہے ،ہم بجٹ کو پاس نہیں ہونے دیں گے،موجودہ پاکستان سے پرانا پاکستان بہتر تھا ،غریب آدمی جس کی تنخواہ 18 ہزار ہے وہ کہاں جائے گا ، وہ کس کے ہاتھ میں اپنا لہو تلاش کرے گا ، جتنی بد اعتمادی صوبوں اور وفاق کے درمیان آج پیدا ہوئی ہے ، اس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی ہے ، ایک گھر میں برتن ہوں تو وہ بھی کھڑکتے ہیں لیکن وہ پھر گھر والے برتنوں کو سنبھالتے ہیں لیکن اس بدترین صورتحال میں کوئی ان کو سنبھالنے والا نہیں،ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہئیں ، تین سالوں میں جس طریقے سے مسائل کو ہینڈل کرنا چاہیے تھا اس کی بجائے پوری توانائیاں اپوزیشن سے انتقام لینے میں صرف کی گئیں۔

شہباز شریف نے کہا کہ پی ٹی آئی کے دھرنوں نے معیشت کا دھڑن تختہ کر دیا ، ہمارے نظام کا دھڑن تختہ کر دیا گیا ، چین کے صدر آ رہے تھے ستمبر 2014 میں اور بہت خطرہ لاحق تھا کہ ان کا دورہ موخر نہ ہو جائے ، ایک رات گیارہ بجے مجھے چینی سفیر نے بتایا کہ دورہ موخر ہو گیاہے ، میں سکتے میں آ گیا تھا ، پاکستان کے غریب عوام کی خوشحالی کا دروازہ کھل رہا تھا ، بڑی کوشش کی گئی کہ عمران خان کو ان کے ساتھیوں کو منانے کیلئے کہ پاکستان کے نام پر تین دن کیلئے ڈی چوک خالی کر دیں لیکن انہوں نے کہا کہ ہم نہیں کریں گے، ہم یہ کریں گے کہ اگر صدر چین یہاں سے گزریں تو ہم نعرے نہیں لگائیں گے، میں نے اپنی زندگی میں اس سے زیادہ دلخراش واقعہ کبھی نہیں دیکھا لیکن سات ماہ بعد چینی صدر تشریف لے آئے اور نوازشریف کی قیادت میں ان چار سالوں میں جو ترقیاتی کام ہوئے وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔

قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے شہبازشریف کا کہناتھا کہ گزشتہ تین سالوں میں یہ چوتھا بجٹ پیش ہواہے ، گزشتہ تین سالوں میں جو ٹیکسوں کی بھر مار کی گئی ، اس کے نتیجے میں غریب کی ایک روٹی آدھی ہو گئی ، لوگوں نے مجبور ہو کر اپنے بچوں کے سکول چھڑو ا دیئے ہیں ، فیسیں نہیں دے سکتے ، اس ہاﺅس میں ہم ان لوگوں کےحالات کا درست انداز ہ نہیں کر سکتے ، ان تین سالوں میں ہمارے ملک کے عوام پر کیا گزری ،  یہ تین سال کے نتیجے میں پاکستان کے اندر بھوک ، افلاس ، مجبوریاں اور بدحالی نے جگہ لی ، یہ بجٹ ایک دفعہ پھر مہنگائی آسمانوں تک پہنچائے گا ، لوگوں کی پہلے ہی جیبیں خالی ہو چکی ہیں باقی بچا کچا بھی خالی ہو جائے گا ،بجٹ کی 66 صفحوں کی سپیچ کی گئی ، ہر صفحے پر مہنگائی لکھا تھا ، ہر صحفے پرغربت نے غریب کو مار دیا  لکھا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی معیشت کی بدحالی تاریخ میں اتنی نہیں ہوئی جتنی ان سالوں میں ہوئی ہے ، 2018 جولائی میں جب ہم نے حکومت چھوڑی اس وقت جی ڈی پی 5.8 فیصد پر تھا ، جب یہ پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو  اگلے سال شرح ترقی 2.1 پر آ گئی ، صرف ایک سال میں ، کورونا سے پہلے منفی اعشایہ صفر پانچ پر آ گئی ، 1952 کے بعد پاکستان کی تاریخ کی سب سے کم ترین سطح پر جی ڈی پی آئی ، اس کے نتیجے میں ان تین سالوں میں دو کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے گہری غار میں دھکیلے گئے ، آج ایک غریب گھرانے کے خرچ کا  بہت بڑا حصہ روٹی اور دال پر لگ جاتاہے ، وہ کہاں سے بیماربیٹی کیلئے دوائی کا اتنظام کرے گا ، جو کہ ان سے چھینی جا چکی ہے، گھر کے کمانے والے شخص کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ان چھے بچوں کیلئے روٹی کا انتظام کرے یا بیٹی کیلئے دوا لائے ، مزدور کی تنخواہ ان تین سالوں میں اٹھارہ فیصد کم ہو چکی ہے ۔

قائد حزب اختلاب نے کہا کہ سرکاری ملازمین یہاں بیٹھے ہیں ، یہ نہیں بات کریں گے  لیکن یہ پورا ہاﺅس ان کی بات کرے گا کہ کس طرح ان کی آمد ن میں کمی ہوئی ، ان کی بڑی تعداد خط افلاس سے نیچے جا چکی ہے ، اس بجٹ کے حوالے سے کروڑوں لوگ سوال کر رہے ہیں، پکا ر پکار کر پوچھ رہے ہیں کہ ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر کہاں ہیں ، اس ملک میں لاکھوں لوگ ایسے ہیں جن کیلئے آج بھی اللہ کا آسمان چھت کا کام دیتا ہے اور زمین فرش کا  ، ایک کمرے میں کرائے پر  چھے افراد کا کنبہ پوری زندگی بسر کرتاہے ، یہ پورا ایوان سنجیدگی سے احساس بھی کرے تو ان کے جذبات تک نہیں پہنچ سکتا ، ایک کروڑ نوکریاں تو دور کی بات ، ان جعلی بجٹ کے نتیجے میں پچا س لاکھ مزید بیروزگار ہو چکے ہیں ، جہاں تک گھر کی بات ہے تو آج مارڈن پورش ہاﺅسنگ سکیمز میں گھروں  کو ان گھروں میں شمار کیا جارہاہے ، جن کو اللہ نے وسائل دیئے ہیں ، وہاں پر جنہوں نے گھر خریدے ہیں ان کو بھی کہا جارہاہے کہ اسے بھی اس میں شامل کریں ، اس سے بڑا دھوکہ کیا ہو سکتا ہے ، تین سال گزر گئے ہیں ، چوتھا بجٹ آ گیا،  ایک اینٹ تک نہیں لگی ہے ،منصوبوں پر پھیتے کاٹتے ہیں اور تختییاں لگواتے ہیں جو نوازشریف کے دور میں مکمل ہوئے ۔

ان کا کہناتھا کہ کون چاہتاہے کہ اس ملک میں بیروزگاری ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ بیروزگاری کی سطح بلند ترین سطح 15 فیصد تک پہنچ گئی ہے ، ریاست مدینہ کا دن رات ذکر کرنا ، کوئی سوچ سکتا تھا کہ ریاست مدینہ میں رات کو کوئی بھوکا سوئے گا ، 15 فیصد بیروزگاری کی شرح کو مہنگائی کے ساتھ ملائیں تو ڈبل ڈیجٹ 16 فیصد پر ہے ۔ اس کے بعد یہ کہنا کہ ہم آئیں گے اور نیا پاکستان بنائیں گے ، جتنی باتیں کی ہیں اس سے صاف عیاں ہے اس سے تو پرانا پاکستان بہتر تھا ۔

انہوں نے کہا کہ ماضی کی حکومتیں کچھ نہ کچھ کوشش کرکے پاکستان کو آگے لے کرگئے ، میں ایمانداری سے بتا رہاہوں کہ ہم سب سیاستدان ہیں ، جتنی صوبوں کے درمیان دوریاں ان تین سالوں میں پیدا ہوئی ہے ، جتنی بد اعتمادی صوبوں اور وفاق کے درمیان آج پیدا ہوئی ہے ، اس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی ہے ، ایک گھر میں برتن ہوں تو وہ بھی کھڑکتے ہیں لیکن وہ پھر گھر والے برتنوں کو سنبھالتے ہیں لیکن اس بدترین صورتحال میں کوئی ان کو سنبھالنے والا نہیں ، چاروں صوبے ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان مل کر پاکستان بناتے ہیں ، میں پہلے پاکستانی ہوں اس کے بعد کوئی اور چیز ہوں۔

انہوں نے کہا کہ اگر پنجاب ترقی کرتاہے اورباقی صوبے نہیں کرتے تو یہ پاکستان کی ترقی نہیں ، سارے صوبے ترقی کرتے ہیں تو پاکستان آگے بڑھتا ہے ، ایک صوبہ پاکستان کو لے کرآگے نہیں بڑھتا بلکہ نفرتیں پیدا ہوتی ہیں ، اسی طریقے سے ان تین سالوں میں اگرآپ اشیائے خوردو نوش کی مجموعی اضافے کی تحقیق کریں تو وہ 30 فیصد ہو چکی ہے ، پھر غریب آدمی جس کی تنخواہ 18 ہزار ہے وہ کہاں جائے گا ، وہ کس کے ہاتھ میں اپنا لہو تلاش کرے گا ،

انہوں نے کہا کہ ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہئیں ، تین سالوں میں جس طریقے سے مسائل کو ہینڈل کرنا چاہیے تھا اس کی بجائے پوری توانائیاں اپوزیشن سے انتقام لینے میں صرف کی گئیں ۔ یہاں پر وہ لوگ بیٹھے ہیں وہ سا ل سال قید کاٹ کرآئے ہیں ، خورشید شاہ ، خواجہ آسف پابند سلاسل ہیں ، کون کہتاہے کہ احتساب نہیں ہونا چاہیے لیکن انصاف ہونا چاہیے ۔

ان کا کہناتھا کہ عمران خان میرٹ کے بہت دلدادہ ہیں، آج تین سال بعد میرٹ کے حوالے سے کتنی اپوائنٹمنٹس ہوئی ہیں ،تین سال بعد دیکھ لیں کہ ایک صوبے میں کتنے آئی جی پولیس بدلے گئے ، کتنے چیف سیکریٹری بدلے گئے ، کتنے ایجوکیشن سیکریٹری اور ہیلتھ سیکریٹری بدلے گئے ، ہر تیسرے مہینے اسسٹنٹ کمشنر اور آئی جی کو بدلیں گے تو کام خاک ہونا ہے، میرٹ کی بات جہاں تک ہے تو جو بھرتیاں ہو رہی ہیں اس کے بدلے تجوریاں بھری جارہی ہیں ، میں پاکستان میں سب سے زیادہ خطاکار ہوں اور اللہ سے معافی مانگتاہوں لیکن بطور صوبے کے خادم  ، پنجاب میں ہزاروں سپاہی، ہزاروں نرسیں  ، ڈاکٹر اور ٹیچرز رکھے گئے ، ان لاکھوں بھرتیوں میں ایک ثابت ہو جائے کہ یہاں پر ڈنڈی ماری گئی تو آپ کا ہاتھ اور میرا گریبان ہو گا ۔