امت تحقیقاتی ٹیم:
بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ کراچی کے سابق میئر وسیم اخترنے الٰہ دین پارک کو لیز پر لینے والی کمپنی کو اسٹے آرڈر دلوانے میں خفیہ مدد دی تھی۔ اس کے عوض کمپنی نے انہیں بھاری رقم ادا کی تھی۔ اس حوالے سے ’’امت‘‘ کے پاس اہم شواہد موجود ہیں۔ سابق میئر نے، کے ایم سی کی لیگل ٹیم کو اے اے جوائے لینڈ پرائیویٹ لمیٹڈ کی جانب سے کورٹ اسٹے لینے کے دوران ٹھوس دلائل نہ دینے کی ہدایت کی تھی۔
سابق میئر کراچی نے ڈبل اے جوائے لینڈ کمپنی کو یقین دہانی کرائی تھی کہ الٰہ دین پارک کی لیز دوبارہ ڈبل اے جوائے لینڈ کمپنی کو ہی دی جائے گی۔ سابق میئر نے دوبارہ لیز کرانے کی صورت میں شرط رکھی تھی کہ مذکورہ کمپنی ان کے بیٹے کو بھی پارٹنر رکھے گی۔ سابق میئر نے سپریم کورٹ کی جانب سے کسی بھی ممکنہ کارروائی کا حکم دینے کی صورت میں الٰہ دین پارک کے خلاف کارروائی کو سردخانے کی نذر کرنے کا یقین دلایا تھا اور زیادہ دبائو آنے کی صورت میں محدود کارروائی کر کے معاملے کو ٹھنڈا کرنے کا کہا تھا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے جب الٰہ دین پارک پر کارروائی کرنے کا حکم دیا گیا تو سابق میئر کراچی نے ایڈمنسٹریٹر کراچی پر دبائو ڈال کر صرف کمرشل دکانوں پر ایکشن کرایا۔ تاکہ دکانوں کی جانب سے احتجاج کی صورت میں نقص امن کو جواز بنا کر معاملے کو ٹھنڈا کیا جا سکے۔ سابق میئر کراچی اور موجودہ ایڈمنسٹریٹر کراچی لئیق احمد کے درمیان پرانے مراسم ہیں اور اس وقت بھی کے ایم سی پر سارا کنٹرول سابق میئر کراچی کا ہے جہاں ان کے منظور نظر افسران اہم عہدوں پر تعینات ہیں اور ان کے حکم پر ہی کارروائیاں کررہے ہیں۔
سابق میئر کراچی نے ڈبل اے جوائے کمپنی کو یقین دلایا ہے کہ وہ کے ایم سی سے ان کی کمپنی کو ہی مزید 25 سال سال کی لیز کرا کے دیں گے۔ اس حوالے سے اندرون خانہ تیاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ سابق میئر کراچی نے سپریم کورٹ کے حکم پر الٰہ دین پارک کی کمرشل دکانوں کو مسمار کئے جانے کے بعد ایم کیو ایم پاکستان کو بھی اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرنا چاہا تھا۔ وہ متاثرہ دکانداروں کے حق میں ایم کیو ایم پاکستان سے احتجاج کرانا چاہتے تھے۔ اس حوالے سے انہوں نے مرکزی قیادت کو راضی کرنے کی کوشش کی۔ لیکن بعض سینئر رہنمائوں کی مخالفت کی وجہ سے انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
’’امت‘‘ کی تحقیقات کے مطابق الٰہ دین پارک کے ایم سی کی جس 52 ایکڑ اراضی پر بنایا گیا ہے، وہ اراضی ایک رفایی پلاٹ ہے جو پارک کے لئے مختص ہے۔ سندھ اربن لینڈ آرڈی نینس کے تحت کسی بھی رفایی پلاٹ کا اسٹیٹس تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ رفایی پلاٹ صرف پارکوں، کھیل کے میدان، قبرستان، اسپتال، اسکول، کالج، کتب خانوں، مساجد کے لیے مختص ہوتے ہیں۔
الٰہ دین پارک کی 52 ایکڑ اراضی بھی پارک کے لیے مختص تھی۔ الٰہ دین پارک کی 52 ایکڑ زمین تفریحی پارک کے لیے نجی کمپنی کو دینے کا فیصلہ 1995ء میں اس وقت کے پاکستان پیپلزپارٹی کے وزیر اعلیٰ سید عبداللہ شاہ کے دور میں ہوا۔ اس وقت کے وزیراعلیٰ سندھ عبد اللہ شاہ اور چیف سیکریٹری نے ایک کمیٹی بنائی جس کا سربراہ حمید ہارون کو بنایا گیا۔ اس کمیٹی کے ایک اہم ممبر اس وقت کے ایڈمنسٹریٹر فہیم الزماں صدیقی بھی تھے۔ 1995ء میں Zodiac جوائے لینڈ نے پیپلز پارٹی کے بعض ذمہ داروں سے وزیر اعلیٰ سندھ عبداللہ شاہ پر دبائو ڈلوایا کہ راشد منہاس روڈ پر تفریحی پارک کے لیے مختص 52 ایکڑ اراضی ان کی کمپنی کو 25 سالہ لیز پر دے دی جائے جہاں وہ Disney land کے طرز کا ایک عوامی تفریحی پارک بنائیں گے جس میں عوام کو جدید طرز پر تفریح فراہم کی جائے گی۔
سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید عبداللہ شاہ نے اس وقت کے ایڈمنسٹریٹر کراچی فہیم الزماں صدیقی کو ہدایت کی کہ وہ Zodiac جوائے لینڈ کو راشد منہاس روڈ کی 52 ایکڑ اراضی کی 25 سالہ لیز دیں۔ اہم ذریعے کا دعویٰ ہے کہ 1995ء میں بھی Zodiac جوائے کمپنی نے لیز حاصل کرنے کے لیے بھاری کمیشن سندھ سرکار کی ایک اہم شخصیت کو دیا تھا اور 30 مئی کو اس وقت کے ایڈمنسٹریٹر فہیم الزماں صدیقی نے ڈبل اے جوائے کمپنی کو لیز اس شرط پر دی کہ وہ تفریحی پارک Disney land کے طرز پر بنائیں گے اور مذکورہ اراضی صرف رفاعی مقاصد کے لیے استعمال ہوگی۔ جبکہ Zodiac جوائے کمپنی کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ معاہدے کیلیے ساتھ اپنا مکمل ماسٹر پلان کے ایم سی کے پاس جمع کرائے گی۔
معاہدہ میں درج تھا کہ 52 ایکڑ تفریحی پارک کی اراضی کا 66 فیصد حصہ کھلا رہے گا، جبکہ 34 فیصد اراضی پر بلڈنگ اور مشینی جھولے نصب کیے جائیں گے اور صرف 5 فیصد اراضی کمرشل استعمال کے لئے ہوگی۔ کمرشل استعمال کی اراضی پر اسنیک بار اور گفٹ شاپ کھولی جا سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر کسی قسم کی کمرشل دکانیں نہیں کھولی جا سکتیں۔ مذکورہ معاہدہ میں واضح لکھا تھا کہ لیز پر لینے والی کمپنی تفریحی پارک کی زمین کا کوئی حصہ کسی کو نہ تو فروخت کر سکتی ہے اور نہ ہی لیز پر دے سکتی ہے۔
’’امت‘‘ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق مذکورہ معاہدہ کو ایک سال گزرنے کے بعد 4 اپریل 1996ء کو اس وقت کے ایڈمنسٹریٹر فہیم الزماں کا تبادلہ ہوگیا اور 9 اپریل کو انظار حسین زیدی کے ایم سی کے نئے ایڈمنسٹریٹر بنے۔ Zidiac جوائے کمپنی نے ایک بار پھر سندھ سرکار کی ایک اہم شخصیت سے دبائو ڈلوا کر اپنے معاہدے میں اپنی مرضی کی شرائط ڈلوانی چاہی اور اس میں وہ کامیاب بھی ہوگئی۔ مذکورہ کمپنی نے اس وقت کے ایڈمنسٹریٹر انظار حسین زیدی سے ایک نیا معاہدہ کیا اور اس وقت انہوں نے اپنی کمپنی کا نام Zodiac جوائے لینڈ سے تبدیل کر کے ڈبل اے جوائے لینڈ پرائیویٹ لمیٹڈ رکھا۔
مذکورہ کمپنی نے اپنے نئے معاہدے میں کھانے پینے کی اشیا کی دکانیں، سامان فروخت کرنے والی دکانیں، نمائشی مراکز اور منی سینما کی منظوری بھی حاصل کی۔ 22 اپریل 1996ء کو ہونے والے معاہدے میں ڈبل اے جوائے لینڈ کمپنی کو دکانوں کی سب لیز کا اختیار بھی دیا گیا جس کے بعد ڈبل اے جوائے لینڈ کمپنی کے حوصلے بڑھے اور انہوں نے رفاعی پلاٹ پر شاپنگ مال اور کلب بنانے کا فیصلہ کیا۔ جس کیلئے انہوں نے 1996ء میں ہی منصوبہ بندی کر لی تھی۔
واضح رہے کہ کے ایم سی کو قانون کے مطابق یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی بھی رفاعی زمین پر کسی شاپنگ مال یا کلب بنانے کی اجازت دے۔ لیکن کے ایم سی نے متحدہ قومی موومنٹ کے دور میں اپنے منصوبے کو اس وقت عملی جامہ پہنایا جب 1998ء میں متحدہ قومی موومنٹ کے فاروق ستار، لوکل گورنمنٹ منسٹر اور وسیم اختر ٹائون پلاننگ منسٹر تھے۔ اس دوران فاروق ستار اور وسیم اختر نے ڈبل اے جوائے لینڈ کمپنی کو اپنے دبائو میں لیا اور انہیں یہ باور کرایا کہ انہوں نے 1996ء میں کے ایم سی سے جو معاہدہ کیا تھا وہ غیرقانونی تھا۔
’’امت‘‘ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق 1998ء میں متحدہ قومی موومنٹ نے ڈبل اے جوائے لینڈ کمپنی سے بھاری رقم بھتہ کی مد میں وصول کی جس کے بعد متحدہ قومی موومنٹ کے فاروق ستار اور وسیم اختر کے دبائو پر 1998ء کے معاہدے میں اضافہ کرایا گیا کہ ڈبل اے جوائے لینڈ کمپنی جو لیز دے گی اس کا 25 فیصد کے ایم سی میں جمع کرایا جائے گا اور الٰہ دین پارک کی کل آمدنی کا 10 فیصد بھی کے ایم سی کو دیا جائے گا۔ جبکہ الٰہ دین پارک لیز پر لینے والی کمپنی متحدہ قومی موومنٹ کو بھی ماہانہ بھتہ ادا کرے گی، جو پارٹی قیادت کو لندن بھیجا جائے گا۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ نے الٰہ دین پارک لیز پر لینے والی کمپنی سے کروڑوں روپے بھتہ وصول کیا اور اسے رفایی پلاٹ پر ہر طرح کی غیرقانونی سرگرمیوں کی اجازت دے دی۔ جس کا خمیازہ آج دکان داروں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
’’امت‘‘ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق 2001ء میں جب پرویز مشرف اقتدار میں آئے تو کے ایم سی کو سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ میں تبدیل کر دیا گیا اور جماعت اسلامی سے تعلق رکھے والے نعمت اللہ خان سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی کے پہلے سٹی ناظم بنے۔ نعمت اللہ خان نے الٰہ دین پارک میں ہونے والی بے قاعدگیوں پر ایکشن لیا اور سخت کارروائیاں کیں۔ اس صورت حال سے الٰہ دین پارک لیز پر لینے والی کمپنی سخت پریشان تھی اور اس نے نعمت اللہ خان کے دور میں اپنی جان چھڑانے کیلئے 26 اکتوبر 2004ء کو سی ڈی جی کے، سے ایک اور معاہدہ کیا جس میں کہا گیا تھا کہ الٰہ دین پارک میں فروخت ہونے والی تجارتی املاک کی فروخت نیلامی کے تحت ہوں گی اور اس نیلامی سے حاصل ہونے والی رقم کا 25 فیصد حصہ سی ڈی جی کے، کو جائے گا۔ اسی دوران سی ڈی جی کے، نے الٰہ دین پارک کو تفریحی ڈیوٹی سے مستثنیٰ قرار دیا جس کا فائدہ الٰہ دین پارک جانے والے عوام کو پہنچا۔
نعمت اللہ خان کا دور قانونی لحاظ سے الٰہ دین پارک کو لیز پر حاصل کرنے والی کمپنی ڈبل اے جوائے لینڈ پر بھاری رہا اور جب نعمت اللہ خان نے اپنے عہدے کی مدت پوری کی تو متحدہ قومی موومنٹ کے مصطفی کمال سٹی ناظم بنے جو اب متحدہ سے الگ ہو کر پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ ہیں۔ مصطفی کمال کے سٹی ناظم بننے کو الٰہ دین پارک لیز پر لینے والی کمپنی نے غنیمت جانا اور اس دوران کمپنی کے بعض ذمہ داران نے لندن میں جاکر الطاف حسین سے ملاقاتیں کیں اور الٰہ دین پارک کی زمین پر شادی ہال اور پویلین اینڈ کلب بنانے کے عوض متحدہ لندن کی قیادت کو بھاری نذرانہ دیا، جس کے بعد ڈبل اے جوائے لینڈ کمپنی نے کے ایم سی جو کہ اس وقت سی ڈی جی کے، تھی اس کی اجازت کے بغیر ہی لیز پر حاصل کی اور52 ایکڑ تفریحی پارک کی زمین پر شادی ہال اور پویلین اینڈ کلب بنا دیا۔
2014ء میں جب پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی اور شرجیل انعام میمن لوکل گورنمنٹ کے وزیر بنے تو انہوں نے الٰہ دین پارک کی زمین پر شادی ہال اور پویلین اینڈ کلب کے قیام پر اعتراض اٹھائے اور بعد ازاں انہوں نے قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے معاملات طے کئے اور کمپنی پر جرمانے عائد کیے، اس دوران الٰہ دین پارک کو لیز پر لینے والی کمپنی اور سندھ سرکار کے درمیان رابطے دوبارہ بحال ہوئے اور متحدہ قومی موومنٹ کو ملنے والا بھتہ بند ہو گیا۔ اس دوران جب نعمت اللہ خان نے پارکوں پر قبضوں کے حوالے سے پٹیشن لگائی تو اس میں الٰہ دین پارک کی اراضی پر قبضہ کا بھی تذکرہ کیا گیا۔ اسی دوران سپریم کورٹ نے 2019ء میں الٰہ دین پارک کی زمین پر تجارتی سرگرمیاں مسمار کرنے کا حکم دیا۔ تب میئر کراچی وسیم اختر تھے اور انہیں اس بات کا غصہ تھا کہ جب متحدہ قومی موومنٹ کمزور پڑی تو الٰہ دین پارک لیز پر لینے والی کمپنی ڈبل اے جوائے لینڈ پیپلزپارٹی کی گود میں بیٹھ گئی۔ جب سپریم کورٹ نے الٰہ دین پارک سے کمرشل قبضہ ختم کرنے کا حکم دیا تو وسیم اختر نے الٰہ دین پارک میں شادی ہالوں کو مسمار کرا دیا۔ لیکن الٰہ دین پارک پارک کی زمین پر شاپنگ مال پر کارروائی نہیں کی۔
اس وقت کے میئر کراچی وسیم اختر کے دور میں جب الٰہ دین پارک کے اندر شادی ہالوں پر کارروائی ہوئی اور انہیں مسمار کیا گیا تو ایک بار پھر ڈبل اے جوائے لینڈ کمپنی نے سابق میئر کراچی سے تعلقات قائم کئے۔ کمپنی یہ بات جانتی تھی کہ اس کی 25 سالہ لیز ختم ہونے والی ہے اور وسیم اختر کے میئر کراچی بننے کے بعد کے ایم سی پر ان کا مکمل ہولڈ ہے جس پر کمپنی نے سابق میئر کراچی سے تعلقات بحال کیے۔ کہا جاتا ہے کہ سابق میئر کراچی اور ڈبل اے جوائے کمپنی کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے میں سائٹ ایسوسی ایشن کے ایک سابق عہدیدار نے اہم کردار ادا کیا۔ اسی دوران جب سپریم کورٹ کی جانب سے الٰہ دین پارک کی زمین کو معاہدے کے خلاف استعمال کرنے پر کارروائی کا عمل شروع ہوا تو کمپنی نے سابق میئر کو کہا کہ وہ ڈبل اے جوائے لینڈ کمپنی کے ساتھ نیا معاہدہ کریں اور انہیں دوبارہ 25 سال کی لیز پر دی جائے۔ اسی دوران کمپنی کا دعویٰ تھا کہ ان کا معاہدہ کے ایم سی سے 21 جون 2021ء کو ختم ہوگا۔ کیونکہ ان کی کمپنی ڈبل اے جوائے لینڈ نے کے ایم سی سے 1996ء میں معاہدہ کیا تھا۔ جبکہ سابق میئر کا کہنا تھا کہ الٰہ دین پارک کی جانب سے 1995ء میں معاہدہ کیا گیا تھا۔ ابھی سابق میئر کراچی اور الٰہ دین پارک کو لیز پر لینے والی کمپنی کے درمیان بات چیت چل رہی تھی تو اسی دوران سابق میئر کراچی نے کہا کہ ان دنوں سپریم کورٹ فل ایکشن میں ہے، ہم نیا معاہدہ نہیں کر سکتے۔ اگر کمپنی کو اسٹے آرڈر مل جائے تو وہ ایک سال میں کے ایم سی اور موجودہ کمپنی کے درمیان نیا معاہدہ کرا دیں گے۔
سابق میئر نے ڈبل اے جوائے لینڈ کمپنی سے بھاری ڈیل کی اور کمپنی سے کہا کہ وہ 1995ء اور 1996ء کے معاہدے کو بنیاد بنا کر عدالت سے اسٹے آرڈر حاصل کرے۔ اس دوران وہ کے ایم سی کے لیگل ڈپارٹمنٹ کو سنبھال لیں گے۔ کے ایم سی کا لیگل ڈپارٹمنٹ ان کی جانب سے عدالت میں عدالتی اسٹے کے دوران کوئی ٹھوس دلائل نہیں دے گا اور انہیں با آسانی کورٹ اسٹے مل جائے گا۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ الٰہ دین پارک کو لیز پر لینے والی کمپنی سے سابق میئر کراچی نے یہ معاملات طے کئے کہ وہ انہیں دوبارہ کے ایم سی سے 25 سالہ لیز کرا کے دیں گے اور نئی لیز کے عوض ان کے بیٹے کو الٰہ دین پارک کا پارٹنر بنایا جائے گا۔
ذریعے کا کہنا ہے کہ کمپنی اور سابق میئر کے درمیان معاملات طے پا گئے تھے اور سابق میئر نے موجودہ ایڈمنسٹریٹر کراچی لئیق احمد کو بھی الٰہ دین پارک کی لیز ڈبل اے جوائے لینڈ کمپنی کو دینے پر آمادہ کر لیا تھا۔ تاہم ایسی اطلاعات ہیں کہ موجودہ ایڈمنسٹریٹر نے کہا کہ الٰہ دین پارک کو لیز پر لینے کے لئے ایک نئی کمپنی نے رضامندی ظاہر کر دی ہے، جس کے بعد ایڈمنسٹریٹر کراچی لئیق احمد نے اندرون خانہ تیاریاں شروع کرا دی ہیں۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ سابق میئر کراچی نے ڈبل اے جوائے لینڈ کمپنی کو یقین دہانی کرائی تھی کہ اگر سپریم کورٹ نے الٰہ دین پارک کے خلاف کوئی فیصلہ دیا تو وہ کے ایم سی سے کہہ کر معاملے کو دبانے کی کوشش کریں گے اور اگر کے ایم سی پر سپریم کورٹ کا دبائو آیا تو الٰہ دین پارک کی کمرشل دکانوں کے خلاف کارروائی کر کے وہاں تاجروں کو احتجاج پر مجبور کر دیں گے۔ جس سے ساری توجہ کمرشل دکانوں پر مرکوز ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ جب سپریم کورٹ نے الٰہ دین پارک میں معاہدہ کے خلاف تجاوزات کو گرانے کا حکم دیا تو سابق میئر کراچی فعال ہوگئے۔
انہوں نے سینئر ڈائریکٹر کے ایم سی کنور ایوب اور ڈائریکٹر اینٹی انکروچمنٹ کے ایم سی بشیر صدیقی کو اعتماد میں لیا اور بعد ازاں موجودہ میئر کراچی لیئق احمد سے ملاقات طے کر کے الٰہ دین پارک پارک پر کمرشل دکانوں کے خلاف کارروائی کرائی جبکہ الٰہ دین پارک کے اندر اور پویلین اینڈ کلب میں نمائشی کارروائی دکھانے کی کوشش کی۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ سینئر ڈائریکٹر کنور ایوب ڈبل اے جوائے لینڈ کمپنی کو دوبارہ 25 سالہ لیز دلانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ عدالت اسٹے کے دوران ہی ڈبل اے جوائے لینڈ کمپنی کو دوبارہ نئی لیز دینے کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ ایک طرف عدالتی حکم پر کارروائی کا واویلا مچایا جارہا ہے اور دوسری طرف خاموشی سے الٰہ دین پارک پارک کی نئی لیز دینے کی کارروائی کو بھی تیز کر دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ 2016ء میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے نیب کو الٰہ دین پارک میں ہونے والی کے ایم سی اور ڈبل اے جوائے لینڈ کمپنی کی کرپشن کے حوالے سے ایک خط لکھا گیا تھا۔ جس میں واضح کیا گیا تھا کہ ڈبل اے جوائے لینڈ کمپنی کے ایم سی سے معاہدے کے خلاف رفاعی پلاٹ کی اراضی 30 فیصد سے بھی زیادہ کمرشل کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ لیٹر میں کہا گیا تھا کہ ڈبل اے جوائے لینڈ کمپنی دراصل صدیق سنز گروپ کا حصہ ہے جو 50 لاکھ روپے سے زائد کی کسٹم ڈیوٹی چوری کیس میں بھی ملوث ہے اور مذکورہ کمپنی الٰہ دین پارک کی اراضی پر کمرشل بلڈنگ بنانے کا بھی ارادہ رکھتی ہے جس کے لئے انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ سے منظوری حاصل کرنے کی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے نیب سے درخواست کی تھی کہ ان کی شکایت کی تحقیقات کرائی جائیں اور اگر ان کی شکایت درست ہے تو صدیق سنز گروپ کی کمپنی ڈبل اے جوائے لینڈ اور کے ایم سی افسران کے خلاف نیب آرڈی نینس 1999ء کے تحت قانونی کارروائی کی جائے۔