انتظامیہ شاپ کیپرزکے ساتھ مل کر جدوجہد کرنا چاہتی ہے- ذرائع۔فائل فوٹو
 انتظامیہ شاپ کیپرزکے ساتھ مل کر جدوجہد کرنا چاہتی ہے- ذرائع۔فائل فوٹو

الہ دین پارک معاملہ میں شکاری خود شکار ہو گیا

امت رپورٹ:
الہ دین پارک والے معاملے میں انکشاف ہوا ہے کہ کنٹریکٹر کمپنی اے اے جوائے لینڈ نے انسداد تجاوزات کے نام پر شروع ہونے والی کارروائی کا رخ دانستہ پہلے شاپنگ مال کی طرف کرایا تھا۔ جوائے لینڈ کے ذمے داران کا خیال تھا کہ پہلے مرحلے میں دکانیں ٹوٹنے سے ہمدردی کی جو لہر اٹھے گی۔ اس کے نتیجے میں انہدامی کارروائی رک سکتی ہے اور یوں ان کا پویلین اینڈ کلب بچ جائے گا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کلب کو تو مسمار کیا ہی جارہا ہے۔ کے ایم سی نے ایک آرڈر کے تحت الہ دین پارک کی انتظامیہ کو اپنا سامان بھی حدود سے نکالنے پر پابندی لگا دی ہے۔ اب جبکہ شکاری خود شکار ہوگیا ہے تو اے اے جوائے لینڈ کی انتظامیہ نے شاپ کیپرز کے ساتھ مل کر جدوجہد کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں الہ دین انتظامیہ نے شاپ کیپرز کو مشترکہ وکیل دینے کی بھی پیشکش کر دی ہے۔

اس سارے معاملے سے آگاہ ذرائع نے بتایا کہ جب سپریم کورٹ نے دو دن کے اندر الہ دین کی حدود میں واقع ’’تجاوزات‘‘ کو گرانے کا حکم دیا تھا تو جوائے لینڈ کے ذمہ داران کو اندازہ تھا کہ دکانیں تو ایگریمنٹ کے تحت کمرشل مقاصد کے لیے مختص پانچ فیصد اراضی پر قائم کی گئی تھیں۔ لہٰذا کے ایم سی کی بھاری مشینری کا رخ فوری طور پر پویلین اینڈ کلب اور شادی ہال کی جگہ قائم کئے گئے گیم زون کی طرف ہوگا۔ جو رفاہی پلاٹ کے قوانین کے برعکس تعمیر کیے گئے تھے۔

ذرائع کے بقول ایک طے شدہ منصوبے کے تحت الہ دین انتظامیہ نے کے ایم سی کے بعض ذمہ داران سے ساز باز کر کے انہدامی کارروائی کا آغاز دکانوں سے کرا دیا۔ مقصد یہ تھا کہ غریب دکانداروں کا روزگار چھینے جانے کے نتیجے میں انسانی ہمدردی کی جو لہر اٹھے گی۔ اسے استعمال کرتے ہوئے اپنے کلب کو بچالیا جائے۔ یاد رہے کہ انسداد تجاوزات کے نام پر الہ دین کی حدود میں شروع ہونے والی کارروائی کے آغاز میں اس حوالے سے کافی شور شرابا ہوا تھا کہ کے ایم سی کی مشینری کا زیادہ تر رخ دکانوں کی طرف ہے۔ جبکہ پویلین اینڈ کلب کو مسمار کرنے کی کارروائی انتہائی سست تھی۔ ذرائع کے بقول یہ سب کچھ ملی بھگت سے ہو رہا تھا۔ تاہم کے ایم سی کے بعض ذمہ داران سے جوائے لینڈ کی سیٹنگ خراب ہوگئی۔ پھر یہ کہ اس پر زبردست عوامی ردعمل بھی آ رہا تھا کہ مسمار کیے جانے کی ساری کارروائی شاپنگ مال کے خلاف کی جا رہی ہے۔ لہٰذا پانسہ پلٹ گیا اور جوائے لینڈ نے اپنی سوچ کے مطابق جو پلان بنایا تھا وہ پورا نہ ہو سکا۔

ذرائع کے بقول چونکہ شاپنگ مال کی تمام دکانیں فروخت ہوچکی تھیں۔ لہٰذا الہ دین انتظامیہ کو ان سے ایک ٹکا نہیں آرہا تھا۔ یوں شاپنگ مال مسمار کیے جانے سے انتظامیہ کو کوئی نقصان نہیں تھا۔ تاہم دکانداروں کی مظلومیت سے جوائے لینڈ کو فائدہ ملنے کا امکان ضرور موجود تھا۔ اس معاملے سے واقف شاپنگ مال میں ایک سے زائد دکانوں کے مالک ایک تاجر کے بقول ’’جوائے لینڈ والوں نے ہمارے لئے کنواں کھودا تھا اور خود بھی اس کنویں میں گرگئے۔ لیکن ہم پویلین اینڈ کلب گرائے جانے کے بھی حق میں نہیں ہیں کہ اس کے نتیجے میں بھی سینکڑوں ملازمین کے گھروں کا چولہا بجھ جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اب جوائے لینڈ کے ذمہ داران اور شاپ کیپرز نے مل کر جدوجہد کا فیصلہ کیا ہے‘‘۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ الہ دین انتظامیہ کی نیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران ایک موقع پر جوائے لینڈ کے وکیل فیصل قریشی نے بھی یہ آفر کی تھی کہ دکانیں الہ دین انتظامیہ خود گرانے کے لئے تیار ہے۔ اس کے لئے اینٹی انکروچمنٹ سیل کو ہدایت دینے کی ضرورت نہیں۔ جس پر وکیل سے استفسار کیا گیا تھا کہ انتظامیہ کس حیثیت میں ان دکانوں کو مسمار کر سکتی ہے۔ لہٰذا ان کی یہ تجویز تسلیم نہیں کی گئی تھی۔
ادھر معلوم ہوا ہے کہ اپنے ہی جال میں پھنس جانے کے بعد اب الہ دین انتظامیہ (اے اے جوائے لینڈ) نے شاپ کیپرز کے ساتھ مل کر اگلا لائحہ عمل طے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ جوائے لینڈ نے اپنے وکیل فیصل قریشی کی جگہ ایک خاتون وکیل کا تقرر کیا ہے۔ ان خاتون وکیل کے والد صاحب کی بھی الہ دین پارک کی حدود میں برگر شاپ تھی۔ شاپ کیپرز کو جوائے لینڈ کے ذمہ داران نے کہا ہے کہ وہ اپنی وکیل کی خدمات بھی انہیں دینے کے لئے تیار ہیں۔ چونکہ دونوں کا معاملہ ایک ہی ہے۔ لہٰذا مشترکہ طور پر آگے کی حکمت عملی طے کی جائے۔ ذرائع کے مطابق فی الحال شاپ کیپرز، جوائے لینڈ کی جانب سے مشترکہ وکیل کی پیشکش پر صلاح مشورہ کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں حتمی فیصلہ جلد کیا جائے گا کہ مشترکہ وکیل کرکے جوائے لینڈ کے ساتھ آگے کا لائحہ عمل طے کیا جائے یا پھر اپنے وکیل کو ہی برقرار رکھا جائے۔

ذرائع کے مطابق شاپ کیپرز کے وکیل نے اپنے ابتدائی مشورے میں کہا ہے کہ مشترکہ وکیل کا فائدہ نہیں ہوگا۔ اس صورت میں بینیفشری جوائے لینڈ ہوگی۔ تاہم ذرائع کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے مشاورت چل رہی ہے اور حتمی فیصلہ ایک دو روز میں کرلیا جائے گا۔ ذرائع کے بقول دونوں فریقوں کے وکیل اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ سپریم کورٹ کے آرڈر کے بعد مزید عدالتی جنگ کے بجائے انسانی ہمدردی کے پہلو پر اس جدوجہد کو آگے بڑھایا جائے۔ کیونکہ سپریم کورٹ انصاف حاصل کرنے کا حتمی پلیٹ فارم ہے۔ اس سے اوپر کی اور کوئی عدالت نہیں۔ جس سے ریلیف لیا جا سکے۔ تاہم انسانی المیہ کے طور پر اپنا کیس پیش کرنے کا آپشن اپنائے جانے سے شاید کوئی روشنی کی کرن پیدا ہو جائے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ پچیس سالہ لیز ختم ہونے پر جوائے لینڈ کا، کے ایم سی کے ساتھ جو تنازعہ چل رہا ہے اور اس سلسلے میں جوائے لینڈ نے ہائی کورٹ سے جو حکم امتناعی لے رکھا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کی رو سے یہ اسٹے آرڈر باقی نہیں رہا ہے۔ لہٰذا جوائے لینڈ کو الہ دین پارک اپنے ہاتھ سے نکلتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس حوالے سے جوائے لینڈ کے ذمہ داران خاصے پریشان ہیں۔ اس صورتحال پر بات کرتے ہوئے ایک میٹنگ کے دوران جوائے لینڈ کے ڈائریکٹر انعام رفیع نے کہا تھا ’’اگر الہ دین کے ایم سی کے پاس چلا جاتا ہے تو ہم اپنی ایک ایک کیل یہاں سے نکال لیں گے‘‘۔ تاہم ذرائع نے تازہ صورتحال کے حوالے سے بتایا کہ ایک آرڈر کے تحت کے ایم سی نے الہ دین پارک کی انتظامیہ کو اپنی حدود سے سامان نکالنے سے روک دیا ہے اور کہا ہے کہ جتنا سامان وہ نکال سکتے تھے انہوں نے نکال لیا۔ اب اگلے احکامات آنے تک مزید سامان نہیں لے جا سکتے۔ الہ دین انتظامیہ کو باالخصوص اپنے مہنگے جھولوں کی فکر ہے۔