ندیم محمود:
گیس کے حالیہ بحران کے نتیجے میں سائٹ کراچی کی ساٹھ فیصد فیکٹریاں بند ہوگئی ہیں۔ گیس کی کمی کا سبب کنرپاساکھی ڈیپ فیلڈ (ٹنڈو الہ یار) کی عارضی بندش بتائی جارہی ہے جہاں مینٹی ننس کا کام جاری ہے۔ سوئی سدرن گیس کمپنی کے مطابق قریباً ڈیڑھ ہفتے میں گیس کی نارمل فراہمی شروع ہوجائے گی۔ تاہم صنعتکاروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس دورانیہ میں کراچی کے انڈسٹریل ایریا کی سو فیصد فیکٹریاں بند ہو سکتی ہیں۔ جبکہ وقت پر برآمدی آرڈرز پورے نہ کئے جانے کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر ایکسپورٹ آرڈرز منسوخ ہونے کا خطرہ ہے۔
او جی ڈی سی ایل کے ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ملک بھر میں گیس کی قلت کا ایشو ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ معاملہ گمبھیر ہوتا چلا جائے گا۔ کیونکہ ڈیمانڈ اینڈ سپلائی میں واضح فرق پیدا ہو رہا ہے۔ گیس استعمال کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ جبکہ گیس کی پیداوار میں اضافہ نہیں کیا جا رہا۔ ان ذرائع کے بقول اس صورتحال کے اصل ذمہ دار حکمران ہیں۔ طلب و رسد کے فرق کو برابر کرنے کے لئے مزید آئل فیلڈ دریافت کرنا ناگزیر ہوگیا ہے تاہم اس طرف توجہ نہیں دی جا رہی۔ اس کے نتیجے میں گزرتے وقت کے ساتھ گیس کا بحران بڑھتا جا رہا ہے۔ اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو آئندہ دس برس میں ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کا فرق اس قدر بڑھ جائے گا کہ صارفین کو محض چند گھنٹے کے لئے گیس دستیاب ہوگی۔ یا پھر بڑے پیمانے پر آر ایل این جی درآمد کرنی پڑے گی۔ جس سے قومی خزانے پر اضافی بوجھ پڑے گا۔
گیس کے حالیہ بحران کا سبب مختلف گیس فیلڈز سے ملک کی مجموعی پیداوار میں ساڑھے چار فیصد کے قریب کمی واقع ہونا ہے۔ ان میں ماری گیس فیلڈ، کندھکوٹ گیس فیلڈ، اچ گیس فیلڈ، سوتیاری گیس فیلڈ اور چند دیگر شامل ہیں۔ تاہم گیس کا اصل بحران سندھ میں آیا ہوا ہے۔ اس کا ایک سبب متذکرہ مختلف فیلڈز سے گیس کی پیداوار میں کمی اور بڑی وجہ کنرپاساکھی ڈیپ فیلڈ کی عارضی بندش ہے۔ یہ فیلڈ ملک میں قدرتی گیس کے سب سے بڑے سپلائرز میں سے ایک ہے۔ ٹنڈو الہ یار کی کنرپاساکھی ڈیپ گیس فیلڈ میں بھی پروسیسنگ پلانٹ کی تنصیب کا کام دس سال کے التوا کے بعد دو ہزار سولہ میں مکمل ہوا تھا۔
سوئی سدرن گیس کمپنی نے منگل کے روز اعلان کیا تھا کہ کمپنی کو مختلف گیس فیلڈز سے دو سو سے ڈھائی سو ایم ایم سی ایف ڈی (ون ملین کیوبک فٹ پر ڈے) گیس کی کمی کا سامنا ہے۔ لہٰذا Non Export Industries (غیر برآمدی صنعتوں) کو گیس کی فراہمی بند کر دی گئی ہے۔ گھریلو صارفین کو گیس کی دستیابی یقینی بنانے کے لئے بجلی گھروں کو فراہم کردہ گیس میں بھی پچاس فیصد کٹوتی کی گئی ہے۔ جبکہ پورے سندھ کے سی این جی اسٹیشن بائیس سے انتیس جون تک بند کئے جاچکے ہیں۔
کنرپاساکھی ڈیپ فیلڈ کی عارضی بندش کے نتیجے میں سوئی سدرن گیس کمپنی کو ایک سو ستّر ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس صورتحال میں سوئی سدرن کمپنی کو دیگر مختلف گیس فیلڈز سے ایک ہزار ساٹھ ایم ایم سی ایف ڈی گیس فراہم کی جا رہی ہے۔ جبکہ گیس کی مجموعی طلب بارہ سو پچاس ایم ایم سی ایف ڈی ہے۔ یوں سوئی سدرن کو اس وقت ایک سو نوے ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی کمی کا سامنا ہے۔ اس میں سے کے الیکٹرک کو ایک سے پچاس ایم ایم سی ایف ڈی گیس فراہم کی جا رہی ہے۔
’’امت‘‘ کے رابطہ کرنے پر سوئی سدرن گیس کمپنی کے ترجمان شہباز اسلام کا کہنا تھا کہ انتیس جون تک ایک سو ستّر ایم ایم سی ایف ڈی گیس واپس آجائے گی۔ جبکہ چار جولائی تک گیس کی نارمل سپلائی کا آغاز ہو جائے گا۔ تاہم کراچی کے صنعت کاروں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ گیس بندش کے اس دورانیہ میں باقی ماندہ فیکٹریاں بھی بند ہو جائیں گی۔ اور بر وقت ایکسپورٹ آرڈرز کی تکمیل بھی ممکن نہیں رہے گی۔
’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹریز کے صدر عبدالہادی نے بتایا کہ گیس کے بحران کی وجہ سے ساٹھ فیصد کے قریب فیکٹریاں بند ہو چکی ہیں۔ یہ تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ اگر مزید دو تین دن اور گیس کی بندش برقرار رہی تو سو فیصد فیکٹریاں بند ہو سکتی ہیں۔ ان کی معلومات کے مطابق گیس کی بحالی کم از کم سات دن اور زیادہ سے زیادہ اکیس دن میں بحال ہونے کا امکان ہے۔ اس کے نتیجے میں کراچی کی انڈسٹری کو بھاری مالی نقصان ہوگا۔ دوسری جانب ایکسپورٹ کے آرڈرز کی بروقت تکمیل بھی خطرے میں پڑ گئی ہے۔
عبدالہادی کے مطابق اگر برآمدی آرڈرز وقت پر پورے نہ کئے جا سکے تو اس کے دو بڑے نقصان ہوں گے۔ ایک یہ کہ مینوفیکچررز کو اربوں روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑے گا۔ دوسرا یہ کہ بڑے پیمانے پر برآمدی آرڈر منسوخ ہوجائیں گے۔ نتیجتاً غیر ملکی خریدار پاکستانی مینوفیکچررز سے دور ہوجائیں گے اور دوسرے مینوفیکچررز ڈھونڈ لیں گے۔ پاکستان کی مجموعی برآمد میں کراچی کا حصہ تقریباً اٹھاون فیصد ہے۔ لہٰذا اس سے ملکی معیشت کو بھی دھچکا پہنچے گا۔ اسی لیے وزیر اعظم سے انہوں نے اپیل کی ہے کہ وہ سائٹ انڈسٹریز کو گیس کی فراہمی کی فوری بحالی کے لئے سوئی سدرن گیس کمپنی کو ہدایت جاری کریں۔
واضح رہے کہ اگرچہ سوئی گیس فیلڈ (بلوچستان) پاکستان کی سب سے بڑی قدرتی گیس فیلڈ ہے۔ تاہم سندھ پاکستان میں سب سے بڑا گیس پیدا کرنے والا صوبہ ہے۔ ملک میں گیس کی مجموعی پیداوار میں سے ستّر فیصد حصہ سندھ کا ہے۔ ایک سوال پر عبدالہادی کا کہنا تھا ’’سوئی سدرن گیس کمپنی والوں سے بات کریں تو وہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی متبادل نہیں ہے۔ حکومت سے رجوع کیا جائے۔ لہٰذا ہماری اپیل پر وزیر اعظم نے سوئی سدرن گیس کمپنی کے ایم ڈی کو بلالیا ہے‘‘۔ بدھ کی شام اس رپورٹ کے لکھے جانے تک وزیر اعظم اور ایم ڈی کے درمیان میٹنگ جاری تھی۔
اس سارے معاملے پر سوئی سدرن گیس کمپنی کے ترجمان شہباز اسلام کا کہنا ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو قبل از وقت اس صورتحال سے آگاہ کر دیا گیا تھا۔ کنرپاساکھی ڈیپ فیلڈ کی مینٹی ننس کے سبب کمپنی کو ایک سو ستر ایم ایم سی ایف ڈی گیس کم موصول ہو رہی ہے۔ اس میں سوئی سدرن گیس کمپنی کا کیا قصور ہے؟ مجموعی طور پر کمپنی کو دو سو ایم ایم سی ایف ڈی کے قریب گیس کی کمی کا سامنا ہے۔ شہباز اسلام نے اس بات کی تردید کی کہ گیس کی عارضی بندش سے ایکسپورٹ انڈسٹری بھی متاثر ہو رہی ہے۔ ان کے بقول سوئی سدرن نے صرف جنرل انڈسٹری کو گیس کی فراہمی بند کی ہے۔ ایکسپورٹ انڈسٹری کو سو فیصد گیس فراہم کی جا رہی ہے۔ دراصل ایکسپورٹ سے منسلک مینوفیکچررز اپنی بائی پروڈکٹ کو بھی ایکسپورٹ انڈسٹری کے ساتھ جوڑ رہے ہیں۔ مثلاً اگر ایکسپورٹ مینوفیکچرر ایک شرٹ بنارہا ہے تو وہ اس شرٹ کے لئے بٹن جنرل انڈسٹری کی فیکٹری سے تیار کرا رہا ہے۔ اس لحاظ سے تو ایکسپورٹ کے ساتھ کئی فیکٹریاں جڑی ہوتی ہیں۔
سوئی سدرن نے ایکسپورٹ پروڈکٹ کو پیش نطر رکھتے ہوئے ہی صرف جنرل انڈسٹری کو عارضی طور پر گیس کی فراہمی بند کی ہے۔ جیسے ہی پیچھے سے گیس کی فراہمی نارمل ہوجائے گی۔ یہ ایشو ختم ہوجائے گا۔ فوری مسئلے کے حل سے متعلق سوال پر شہباز اسلام کا کہنا تھا کہ ایک طریقہ یہ ہے کہ کے الیکٹرک کو دی جانے والی گیس میں کٹوتی کر کے انڈسٹری کو گیس فراہم کر دی جائے۔ لیکن پھر اس گرمی میں کے الیکٹرک کی لوڈ شیڈنگ مزید بڑھ جائے گی۔ یوں سوئی سدرن کمپنی ہر طرف سے پھنسی ہوئی ہے۔ بحران کے مستقل حل کے لیے مزید گیس آئل فیلڈ تلاش کرنی ہوں گی۔ لیکن اس میں دو سے تین برس کا عرصہ لگ جائے گا۔ فوری حل یہ ہے کہ آر ایل این جی امپورٹ کی جائے۔ جبکہ گھریلو صارفین کو سوئی گیس کے بجائے ایل پی جی پر لایا جائے۔ گاڑیوں کو مکمل پٹرول پرلاکر گیس کو انڈسٹری اور بجلی بنانے کے لیے استعمال کیا جائے۔ تاکہ لوگوں کو سستی بجلی مل سکے۔