اسلام آباد ہائیکورٹ نے نیشنل بینک کے صدر عارف عثمانی کو عہدے سے ہٹانے کا حکم دے دیا۔
عدالت نے چیئرمین بورڈ آف ڈائریکٹرز زبیر سورمو کو بھی عہدے سے ہٹانے کا حکم دیا۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے محفوظ فیصلہ سنایا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن کیانی نے چیئرمین بورڈ زبیر سومرو اور صدر نیشنل بینک عارف عثمانی کے خلاف درخواستو ں پر دو جون کو سماعت کی تھی جس دوران عدالتی حکم پر اسٹیٹ بینک کے افسران پیش ہوئے جبکہ درخواست گزار سید جہانگیر، جاوید اقبال ، فضل رحیم اور لطیف قریشی کی طرف سے آفتاب عالم یاسر ایڈووکیٹ سید وقار نقوی ایڈووکیٹ، شاہد کمال خان ایڈووکیٹ اور ڈاکٹر جی ایم چودھری ایڈووکیٹ بھی پیش ہوئےتھے۔ سٹیٹ بینک نے پینل کی لسٹ پیش کی اور استدعا کی کہ بینک نیشنلائزیشن ایکٹ کے مطابق صدر اور چیئرمین اسی لسٹ کے مطابق تعینات ہوئے ،قانون کے مطابق یہ مکمل اور صحیح طریقہ ہے۔
فریقین کی طرف سے وقار نقوی ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر یہ صرف اس پینل کے مطابق نوٹیفکیشن جاری کر دیتے تو ہمارے استدلال مختلف ہوتے انہوں نے اشتہار اور کیبنٹ سے منظوری کا طریقہ خود اختیار کیا جس میں فاش غلطیاں کیں اب یہ لوگ اس دلیل کے پیچھے نہیں چھپ سکتے اور قانونی طور پراس پر واپس نہیں جا سکتے۔
عدالت نے وقار نقوی کی دلیل سے اتفاق کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک سے استفسار کیا کہ اگر پینل میں لوگ موجود تھے تو اشتہار دینے کی کیا ضرورت تھی اوراشتہار میں اس پینل کا ذکر کیوں نہیں کیا۔ عدالت نے پوچھا کہ اس پینل لسٹ میں اور کتنے ایسے افراد تھے جن کے پاس فنانس سے متعلقہ ڈگری نہیں تھی۔ کیا صرف عثمانی صاحب کو نوازا گیا۔ اسٹیٹ بینک کے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا۔عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے حکم جاری کیا کہ دو دن کے اندر عدالت میں تعلیمی قابلیت پر مشتمل مکمل فہرست سربمہر لفافے میں جمع کروائی جائے۔
ڈاکٹر جی ایم چوہدری ایڈوکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہا سٹیٹ بینک نے تواس سے قبل اولڈ ہوم چلانے والے کو صدر لگا دیا تھا اور پچھلے صدر سعید احمد کا نام پینل میں بھی شامل نہیں تھا۔ عثمانی صاحب کے دور میں اربوں روپے کے فراڈ ہو رہے ہیں۔ عدالت نے اس پر ریمارکس دیئے کہ لگتا ہے سٹیٹ بینک سویا ہوا ہے۔
عدالت میں آج دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب اسٹیٹ بینک کے نمائندے نے فٹ اور پراپر ٹیسٹ پڑھتے ہوئے تعلیمی قابلیت کا پیرا حذف کرتے ہوئے اگلا پیرا شروع کر دیا۔ اس پر فریقین کے وکلاءنے عدالت کی توجہ اس جانب مبذول کروائی۔ فریقین کے وکلانے کہا کہ سٹیٹ بینک ریگولیٹر کم اور پارٹی زیادہ لگ رہا ہے۔احمر بلال صوفی نے عدالت میں کہا کہ انہوں نے چند سی وی عدالت میں جمع کروائے تھے۔ عدالت نے ان کو از راہ تفنن اس دلیل کو چھوڑ دینے کا مشورہ دیا۔
زبیر سومرو کی تعیناتی کے خلاف وقار نقوی نے دلائل دیتے ہوئے سپریم کورٹ اوراسلام آباد ہائیکورٹ کی نظیریں جمع کروائیں اور کہا کہ 73 سال کی عمر میں سٹیٹ بینک پینل پرموجود ہونا ایک غیر قانونی عمل ہے اور بغیر اشتہار اس عمر میں چیئرمین بورڈ کی تعیناتی غیرقانونی ہے۔ وقار نقوی نے بیان دیا کہ باقی افسران کے خلاف مجاز فورم پر قانونی چارہ جوئی کی جائے گی لہذا اس درخواست میں وہ اس پر زور نہیں دے رہے۔