پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آ گئی ، میٹنگ کا مقصد ملکی سیکیورٹی پالیسی کی اونر شپ لینا تھا ۔ اجلاس میں بلاو ل بھٹو نے علی وزیر کو معاف کرنے کا کہا تو آرمی چیف نے جواب دیا کہ ایسا مسئلہ نہیں،علی وزیرکو معافی مانگنا ہو گی، میرے خلاف ایاز صادق اورنوازشریف نے بات کی،ہم نے برداشت کی، ذات پر بات کرنا اور معاملہ ہے جبکہ پاک فوج کے خلاف بات کرنا اور بات ہے، پاک فوج پر تنقید برداشت نہیں کریں گے۔
نجی ٹی وی کے مطابق قومی اسمبلی میں اپوزیشن اور حکومتی اراکین اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھے جبکہ سپیکر کی نشست اپوزیشن کے بینچز کے سامنے لگائی گئی ، سکرین کے سامنے آرمی چیف ، ڈی جی آئی ایس آئی بیٹھے ۔سیاسی و عسکری قیادت میں زیادہ گپ شپ کھانے کی میز پر ہوئی ، اجلاس میں کسی بھی معاملے پر تلخی نہیں ہوئی اور ماحول خوشگوار رہا ، اپوزیشن اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان برف بھی پگھلی ہے ،میٹنگ طویل ہونے پر آرمی چیف نے کہا کہ ہم آپ کے ساتھ کھانا کھائیں گے اور ناشتہ بھی کریں گے ۔
پالیمانی کمیٹی قومی سلامتی کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان کی شرکت سے متعلق شہبازشریف نے سپیکر دفتر میں کہا تھا کہ وہ آئیں گے تو پھر ہم نہیں آئیں اور ہم واک آﺅٹ بھی کر سکتے ہیں ، اس کے بعد وزیراعظم اجلاس میں شرکت کیلئے نہیں آئے ۔انتہائی اہم اور اعلیٰ سطح ملاقات میں آرمی چیف سے پہلا سوال مشاہد حسین ،دوسرا شہبازشریف ، تیسرا بلاول بھٹو اور چوتھا شاہ محمود قریشی نے کیا ۔
اجلاس کے دوران مشاہد حسین نے آرمی چیف سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ” مسلم لیگ ن پر ہاتھ ہلکا رکھیں جس پر آرمی چیف نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ’ فواد چوہدری بھی ساتھ ہی کھڑے ہیں آپ کے ۔‘ اجلاس میں آرمی چیف نے رہنما (ن) لیگ احسن اقبال سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے بیٹے سے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں ملا تھا۔ذرائع کے مطابق کھانے کی میز پر رانا ثناء اللہ اور رانا تنویر بھی آگئے تو جنرل باجوہ نے کہا میری تو بیوی بھی راجپوت ہے ، اس کے علاوہ پاکستان کی فوج میں 40 فیصد پشتون ہیں، ہم سب کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔
اجلاس کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے بریفنگ کو کھلم کھلا سراہا اورکہا کہ ہم پاکستان کی افواج کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ اجلاس میں افغانستان سے امریکی فوج کے جانے کے بعد کی صورتحال سے متعلق بات چیت بھی ہوئی ۔بریفنگ کے دوران عسکری حکام نے سیاسی قیادت کوبتایا کہ افغانستان میں خانہ جنگی کے خدشات ہیں تاہم پاکستان، چین، روس، ایران چاہتے ہیں افغانستان میں خانہ جنگی یا جغرافیائی تقسیم نہ ہو، طالبان سے ہماری کوئی لڑائی نہیں اور نہ ہی ان پر ہمارا کوئی دباؤ ہے۔ افغانستان میں کسی قسم کی بھی لڑائی ہوئی تو اس کا اثر پاکستان پرآئے گا ، بھارت کا طالبان کے ساتھ فی الحال کوئی براہ راست رابطہ نہیں ہوا ، اگر افغان مہاجرین آئیں گے تو سرحدپر ہی محدود رکھا جائے گا ۔
اجلاس میں محسن داوڑ نے دو بار بات کرنے کی کوشش کی لیکن اسپیکرنے انہیں روک دیا ، اسپیکرنے اجلاس میں کہا کہ مسئلہ کشمیر اورسیکیورٹی صورتحال پراجلاس کچھ دن بعد پھر بلاتے ہیں ، جس پر آرمی چیف نے کہا کہ کوئی اعتراض نہیں اجلاس بے شک ہفتے کے آخر میں رکھ لیں ۔
بلاول بھٹو نے آرمی چیف سے کہا کہ علی وزیر کو معاف کردیں ،جس پرآرمی چیف نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایسا مسئلہ نہیں ، ایاز صادق اور نوازشریف نے میرے خلاف بات کی ،ہم نے برداشت کی،ذات پر بات کرنا اور معاملہ ہے لیکن پاک فوج کے خلاف بات کرنا اور بات ہے ، اس کیلیے علی وزیر کو معافی مانگنی ہو گی ، اس کے بغیر نہیں ہو سکتا ، سب کو سسٹم میں لے کر چل رہے ہیں ،پشتونوں کے ساتھ ہیں ، 40 فیصدفوج پشتونوں پر بھی مشتمل ہے ، ہم پشتونوں کے خلاف کیسے ہو سکتے ہیں ، میرے چھوٹے بیٹے کی شادی بھی پشتونوں میں ہو رہی ہے ۔