٭…جان کے بدلہ جان ہو جائے، جانور کی جان چلی جائے اورانسان کی جان بچ جائے، یعنی اللہ تعالیٰ جانور کی جان قبول فرما کر بندے کی جان نہ لیں، یہ خیال بے اصل ہے، شریعت کی کسی دلیل سے یہ ثابت نہیں ، البتہ اس خیال سے جانور ذبح کرنا کہ خدا کے واسطے جان کی قربانی دی جائے اور یہ خیال کیا جائے کہ جس طرح مالی صدقہ رب تعالیٰ کی رحمت کو متوجہ کرتا ہے، اسی طرح یہ قربانی بھی رب تعالیٰ کی رحمت کو متوجہ کرے گی اور حق تعالیٰ اپنی رحمت سے مریض کو شفاء عطا فرما دے گا، تو یہ جائز ہے۔ بعض لوگ صدقہ میں جان کا بدلہ جان ضروری سمجھتے ہیں اور بکرے وغیرہ کو تمام رات مریض کے پاس رکھ کر اور بعض لوگ مریض کا ہاتھ لگوا کر خیرات کرتے ہیں یا مریض کے پاس بکرے کو ذبح کرتے ہیں اور اس کے بعد خیرات کرتے ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ مریض کو بکرے پر ہاتھ لگانے سے تمام بلائیں گویا اس کی طرف منتقل ہوجاتی ہیں، پھر خیرات کرنے سے وہ بھی چلی جاتی ہیں اور جان کے بدلہ جان دینے سے مریض کی جان بچ جائے گی وغیرہ وغیرہ، یہ عقیدہ اور اعتقاد شریعت کے خلاف ہے۔ اس قسم کا اعتقاد رکھنا درست نہیں۔
٭…قربانی کا جانور ادھار خرید کر قربانی کرنا جائز ہے، البتہ بعد میں قیمت ادا کرنا ضروری ہے۔
٭…اگر کسی صاحب نصاب آدمی نے قربانی کیلیے جانور خرید کر رکھا ہو اور قربانی کے ایام میں اس آدمی کا انتقال ہوگیا، تو وہ جانور مرحوم کے ترکہ میں شامل ہوجائے گا اور تمام ورثاء شریعت کے قانون کے مطابق حقدار ہوں گے۔ اب وارثوں کو اختیار ہے چاہیں تو مرحوم کے ایصال ثواب کے لئے اس جانور کی قربانی کریں یا اس کو وراثت میں تقسیم کریں۔واضح رہے کہ اس جانور کو مشترکہ طور پر ایصال ثواب کے لئے قربانی کرنے کی صورت میں تمام وارثوں کا بالغ ہونا شرط ہے، نابالغ وارثوں کی اجازت معتبر نہیں ہوگی۔
٭…کسی پر قربانی واجب تھی، لیکن قربانی کے تینوں دن گزر گئے، اس نے قربانی نہیں کی تو ایک بکری یا بھیڑ کی قیمت خیرات کردے اوراگر قربانی کا جانور خرید لیا اور کسی وجہ سے قربانی نہ کر سکا تو زندہ جانور صدقہ کر دیا جائے اور اگر مسئلہ سے ناواقف ہونے کی وجہ سے بقر عید کے بعد اس جانور کو ذبح کو ڈالا تو غرباء پر اس کا گوشت تقسیم کردیا جائے، مالداروں کو نہ دیا جائے اور اگر جانور ضائع ہوگیا اور قربانی نہ کر سکا اور خریدنے والا امیر ہے تو اس کے ذمہ اس کی قیمت کا صدقہ کر دینا واجب ہے۔
٭…ذبح کے وقت اس بات کا پورا اہتمام کیا جائے کہ جانور کو تکلیف کم سے کم ہو، اس لئے یہ حکم دیا کہ چھری کو تیز کرے، اور ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح نہ کرے اور حلقوم وغیرہ پورا کاٹے تاکہ جان آسانی سے نکل جائے اور جانور کے سامنے چھری تیز نہ کرے۔
٭…اگر جانور خریدنے کے وقت قربانی کی نیت نہیں تھی، بعد میں قربانی کرنے کی نیت کی تو اس جانور کی قربانی لازم نہیں ہوگی۔
٭…قربانی کے جانور کو چند روز پہلے سے پالنا افضل ہے، تاکہ اس سے محبت ہو اور محبوب جانور کو قربان کرنے سے ثواب زیادہ ملے۔
٭…جانور کی قربانی سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ سے عبادت اور تقرب الٰہی کا ذریعہ قرار دی گئی اور قربانی کی قبولیت کا خاص ایک طریقہ تھا کہ آسمانی آگ آکر اس کو جلا دیتی تھی۔
٭…اگر صاحب نصاب آدمی نے قربانی کے لئے جانور خریدا اور جانور گم ہوگیا اور اس نے قربانی کے لئے دوسرا جانور خریدا، قربانی کرنے سے پہلے گم شدہ جانور بھی مل گیا، اب اس کے پاس کل دو جانور ہوگئے، تو اس صورت میں دونوں جانوروں میں سے کسی ایک جانور کی قربانی کرنا واجب ہے، دونوں کی نہیں، البتہ دونوں جانوروں کی قربانی کردینا مستحب ہے۔
لیکن اگر کسی غریب نے ایسا کیا تو اس پر دونوں جانوروں کی قربانی کرنا واجب ہوگا، کیونکہ غریب پر قربانی واجب نہیں تھی، قربانی کی نیت سے جانور خریدنے کی وجہ سے قربانی واجب ہوگئی، جب دو جانور اس نیت سے خریدے تو دونوں کی قربانی لازم ہو گی۔