٭…اگر ایک جانور قربانی کی نیت سے خریدا، اب اس کے بدلہ میں دوسرا جانور دینا چاہیں تو دوسرا جانور سے کم قیمت پر نہ دیں اور اگر دوسرا جانور پہلے جانور سے کم قیمت پر خرید لیا تو پہلے اور دوسرے جانورکی قیمت میں جتنا فرق ہے اس کو صدقہ کردیں۔
٭…اگر کسی ملک یا کسی علاقے میں جنگ، شورش، کرفیو، قتل و قتال، فساد یا طوفان یا سیلاب وغیرہ کی وجہ سے قربانی کے جانور نایاب ہوجائیں، اور تلاش کے باوجود تین دن میں جانور نہ ملیں تو اس صورت میں قربانی کے جانور کی یا بڑے جانور کے ساتویں حصے کی قیمت خیرات کردے۔
جانوروں کی عمریں
قربانی کے لیے جانوروں کی عمریں متعین ہیں۔
بکرا: ایک سال کا ہو۔
گائے، بیل، بھینس: دو سال کی۔
اونٹ: پانچ سال کا ہونا ضروری ہے، اگر مذکورہ جانوروں کی عمریں متعینہ عمر سے کم ہیں تو ان کی قربانی جائز نہیں ہوگی۔
اگر بھیڑ اور دنبہ چھ مہینے سے زیادہ اور ایک سال سے کم ہو مگر اتنا موٹا، تازہ فربہ ہوکہ سال بھر کا معلوم ہوتا ہو، اور سال بھر کے بھیڑ اور دنبوں میں اگر چھوڑ دیا جائے تو سال بھر سے کم کا نہ معلوم ہوتا ہو، تو اس کی قربانی بھی جائز ہے اور اگر چھ مہینے سے کم کا ہو تو اس کی قربانی جائز نہیں، خواہ وہ کتنا ہی موٹا تازہ ہو اور یہ حکم ایک سال سے کم عمر کا صرف بھیڑ اور دنبہ کے بارے میں ہے۔
اگر بکرے کی عمر سال پورا ہونے میں ایک آدھ روز کم ہو تو اس کی قربانی درست نہیں ہوگی۔
جب کسی جانور کی عمر پوری ہونے کا یقین غالب ہوجائے تو اس کی قربانی کرنا درست ہے ورنہ نہیں، اور اگر کوئی جانور دیکھنے میں پوری عمر کا معلوم ہوتا ہے، مگر یقین کے ساتھ معلوم ہے کہ اس کی عمر ابھی پوری نہیں ہے تو اس کی قربانی درست نہیں ہے، (البتہ اس سے دنبہ اور بھیڑ مستثنیٰ ہے)۔
کوئی جانور دیکھنے میں کم عمر کا معلوم ہوتا ہے مگر یقین کے ساتھ معلوم ہو کہ اس کی عمر پوری ہے تو اس کی قربانی درست ہے۔
٭…مثلاً اگر کسی شخص کے چار لڑکے ہیں، باپ کے ہمراہ کماتے ہیں، اور خوب کماتے ہیں، گھر میں بھی سب کچھ ہے، حویلیاں، جائیداد زمین، مال و زر، بیویاں، بچے وغیرہ اور سب مشترک رہتے ہیں، ایک جگہ کھانا پینا اور دیگر اخراجات ہیں، باپ نے بیٹوں کو حسب مرضی خرچ کرنے کا اختیار دے رکھا ہے تو اس صورت میں اگر سب نصاب کے مالک ہیں تو ہر ایک پر ایک ایک حصہ قربانی کرنا واجب ہے، ایک باپ کی طرف سے اور چار لڑکوں کی طرف سے، اور اگر بیویاں بھی نصاب کی مالک ہیں تو ان پر بھی ایک ایک حصہ قربانی الگ الگ واجب ہوگی۔ مثلاً اگر چار بھائی مشترک ہیں اور سب نصاب کے مالک ہیں، باپ کے مرنے کے بعد ترکہ کو تقسیم کرکے الگ نہیں ہوئے، مشترک ہی کماتے اور خرچ کرتے ہیں تو ان چاروں بھائیوں پر بھی نصاب کے مالک ہونے کی وجہ سے الگ الگ، ایک ایک حصہ قربانی واجب ہوگی، سب کی طرف سے ایک حصہ قربانی درست نہیں ہوگی۔
٭… جرسی گائے کی پیدائش فطری طریقہ یعنی نر و مادہ کے اختلاط اور صحبت سے نہیں ہوتی بلکہ گائے پر جب شہوت کا غلبہ ہوتا ہے اور اسے نرکی ضرورت پیش آتی ہے جسے ماہر لوگ سمجھ لیتے ہیں اس وقت انجکشن کے ذریعہ ولایتی بیل کا نطفہ اس کے رحم میں پہنچادیا جاتا ہے اس سے جو بچہ پیدا ہوتا ہے اسے ’’جرسی گائے‘‘ کہا جاتا ہے، عام گایوں کی طرح اس کی پشت پر کوہان کی طرح ابھار نہیں ہوتا۔چونکہ ولایتی بیل کا نطفہ انجکشن کے ذریعے گائے کے رحم میں پہنچایا جاتا ہے اور اس سے بچہ کی ولادت ہوتی ہے تو اسے گائے کا بچہ کہا جائے گا اور اس کا کھانا حلال ہوگا اور قربانی کرنے سے قربانی بھی جائز ہوگی البتہ قربانی ایک عظیم عبادت ہے اس میں ایسا جانور ذبح کرنا بہتر ہے جس میں کسی قسم کا شک و شبہ نہ ہو، جب غیر مشتبہ جانور آسانی سے دستیاب ہوسکتے ہیں تو اس قسم کے مشتبہ جانور کو ذبح نہ کرنے میں احتیاط ہے، اپنی عبادت کو مجبوری کے بغیر مشتبہ بنانا مناسب نہیں۔