٭…ذبح کرتے وقت جانور کے گلے کو یہاں تک کاٹے کہ چار رگیں کٹ جائیں جو نرخرے کے داہنے اور بائیں ہوتی ہیں، اگران میں سے تین ہی کٹ گئیں، تب بھی ذبح درست ہے اوراس کا کھانا حلال ہے اوراگر دو ہی رگیں کٹیں تو جانور مرداراوراس کا کھانا حرام ہے اور اگر بھول جائے تو کھانا درست ہے۔
٭…جس جانور کی زبان کٹی ہوئی ہو جس کی وجہ سے وہ چارہ گھاس وغیرہ نہ کھا سکے تو اس کی قربانی درست نہیں۔
٭…اگر جانور کو مارنے سے اس کے بدن پر زخم ہو گیا تو اس کی قربانی درست ہے، مگر بہتر یہ ہے کہ ایسے جانور کی قربانی نہ کرے۔
زندہ بچہ نکلا
٭… اگر قربانی کے جانورکو ذبح کرنے کے بعد پیٹ سے زندہ بچہ نکلے تو اس کو ذبح کردیا جائے اور اگر مردہ نکلے تو اس کو استعمال میں لانا جائز نہیں۔
اور اگر اس کو قربانی کے ایام میں ذبح نہیں کیا تو قربانی کے ایام گزرنے کے بعد صدقہ کردیا جائے اور اگر آئندہ سال اس بچے کی قربانی کی تو واجب قربانی ادا نہیں ہوگی اور ذبح کئے ہوئے جانور کے بچے کو صدقہ کردینا ضروری ہے، اگر ذبح کرنے کی وجہ سے قیمت میںکمی آتی ہے تو اتنی قیمت کے برابر رقم بھی صدقہ کردینا ضروری ہے اور اس کی جگہ پر دوسرے جانور کی قربانی لازم ہوگی۔
٭… قربانی کے جانور میں اگر کوئی ایسا شخص شریک تھا، جس پر قربانی واجب تھی اور وہ پھر ذبح سے پہلے شرکت سے علیحدہ ہوگیا اور دوسرا آدمی اس کی جگہ شریک ہوگیا، تو قربانی ہوجائے گی۔ قربانی کے جانور میں اگر کوئی ایسا شخص شریک تھا جس پر قربانی واجب نہ تھی، وہ اگر ذبح کرنے سے پہلے علیحدہ ہو جائے تو اس پر قربانی واجب رہ جائے گی اور اس جانور کے شرکا کی قربانی بھی درست نہ ہوگی۔ اگر بڑے جانور میں متعدد افراد شامل ہیں تو ہر فرد کو اپنے حصے کے مطابق پیسہ دیدینا چاہئے، تاہم اگر کوئی شریک خوشی سے دوسرے کی طرف سے کوئی پیسہ زیادہ دیدے تو اس میں کچھ حرج نہیں ہے۔
٭…کسی پر قربانی واجب تھی، مگر اس نے ابھی قربانی نہیں کی تھی کہ قربانی کا وقت ختم ہونے سے پہلے ہی وہ مر گیا تو اس سے قربانی ساقط ہوگئی، قربانی کے لئے وصیت کرنا اور وارثوں کے لئے اس کی طرف سے قربانی کرنا لازم نہیں ہوگا۔ اگر کوئی صاحب نصاب قربانی کے ایام میں انتقال کر گیا اور اس نے اس سال کی قربانی نہیں کی، تو اس سے قربانی کا وجوب ساقط ہو جائے گا۔
٭…اگر کسی صاحب نے نصاب آدمی نے قربانی کی نذر مانی تو اس کو قربانی کے ایام میں دو قربانیاں کرنی ہوں گی۔ ایک قربانی تو منت کی وجہ سے لازم ہوگی اور دوسری قربانی صاحب نصاب ہونے کی وجہ سے لازم ہوگی۔
٭…صاحب نصاب پر قربانی واجب ہے اور قربانی واجب ہونے کی دلیل سنن ابن ماجہ میں مروی ہے: ’’یعنی جس کو وسعت ہے اور وہ قربانی نہ کرے تو ہمارے مصلی (عیدگاہ) کے قریب نہ آئے۔‘‘ (ابو اب الاضاحی ج: 1ص:226 قدیمی کتب خانہ)
ظاہر ہے کہ صاحب نصاب وسعت والا ہے، پس اگر ایک گھر میں دو افراد صاحب نصاب ہیں تو دونوں پر قربانی واجب ہوگی۔ اور چار ہوں تو چاروںپر اور ایک ہو تو ایک پر۔
٭…کسی پر قربانی واجب تھی، مگر اس نے ابھی قربانی نہیں کی تھی کہ قربانی کا وقت ختم ہونے سے پہلے ہی وہ غریب ہوگیا، تو اس سے قربانی ساقط ہو جائے گی۔
٭…جس پر صدقہ فطر واجب ہے، اس پر عید کے دنوں میں قربانی کرنا بھی واجب ہے اور اگر اتنا مال نہ ہو، جتنے کے ہونے سے صدقہ فطر واجب ہوتا ہے تو اس پر قربانی واجب نہیں ہے، لیکن پھر بھی اگر قربانی کرے گا تو ثواب ملے گا۔ جس مرد یا عورت پر قربانی واجب ہے، اس پر ضروری ہے کہ قربانی کے تین دنوں میں سے کسی دن جانور ذبح کر کے قربانی کرے، قیمت صدقہ کرنے سے یا کسی دوسرے نیک کام میں لگا دینے سے قربانی کی ذمہ داری ادا نہیں ہوگی۔ صدقہ کرنے سے صدقہ کا ثواب ملے گا، لیکن قربانی نہ کرنے کا گناہ ہوگا۔
٭…ضرورت اصلیہ سے مراد وہ ضرورت ہے، جو جان یا آبرو سے متعلق ہو، یعنی اس کے پورا نہ ہونے سے جان یا عزت و آبرو جانے کا اندیشہ ہو، مثلاً کھانا پینا، پہننے کے کپڑے، رہنے کا مکان، اہل صنعت و حرفت کے لئے ان کے پیشہ کے اوزار، ضرورت اصلیہ میں داخل ہیں، البتہ بڑی بڑی دیگیں، بڑے بڑے فرش، شامیانے، ریڈیو، ٹیپ ریکارڈ، ٹیلی ویژن، وی سی آر وغیرہ ضرورت اصلیہ میں داخل نہیں ہیں۔ اگر ان چیزوں کی قیمتیں نصاب تک پہنچ جائیں گی تو ایسے آدمی پر قربانی واجب ہوگی۔ واضح رہے کہ ٹیلی ویژن اور وی سی آر آلات، معصیت ہیں، رکھنا اور دیکھنا جائز نہیں۔