طالبان مجاہدین نے عوامی مقامات پر افغان فضائیہ اور امریکی طیاروں کی بمباری کا بدلہ لینے کا اعلان کر دیا جبکہ امریکا اور کابل انتظامیہ کو دھمکی دی ہے کہ اگرعوامی مقامات پر بمباری کا سلسلہ نہ روکا گیا تو صدر اشرف غنی، وزیر داخلہ جنرل عبدالستار، نائب صدر امراللہ صالح، وزیر دفاع جنرل بسم اللہ محمدی اور دیگر اہم عہدیداروں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ دوسری جانب طالبان کے مطالبے پر ترکی نے امریکی افواج کے ساتھ کام کرنے والے افغان شہریوں کو پناہ دینے سے انکارکر دیا ۔
طالبان مجاہدین کے میڈیا کمیشن کی جانب سے جاری ایک طویل بیان میں کہا گیا ہے کہ پچھلے ایک ہفتے کے دوران کابل انتظامیہ کی فضائیہ نے ملک کے مختلف علاقوں میں متعدد عوامی مقامات اور سرکاری تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے اور یہ سلسلہ روکا نہیں کیا۔ صوبہ کنڑ کے ضلع غازی آباد میں محکمہ تعلیم کی سرکاری عمارت پر بمباری۔ ہلمند کے دارالحکومت لشکرگاہ میں آریانا اسپتال اور بوست یونیورسٹی کو بمباری سے نشانہ بنانا اور بدخشان کے ضلع یاوان کے پولیس ہیڈ کوارٹر پر حملہ کابل انتظامیہ کے مظالم کی ایک ہلکی سی جھلک ہے۔ ان سرکاری تنصیبات کی تباہی کے علاوہ مساجد اور گھروں کو بھی نشانہ بنایا گیا جس سے جانی و مالی نقصان ہوا۔
فوجی قواعد کے مطابق شہری تنصیبات کو نشانہ بنانا اور تباہ کرنا جنگی جرم کے زمرے میں آتا ہے اور مجرموں کے خلاف قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔ بالخصوص عوامی اسپتال پر بمباری کرنا ایک بہت بڑا جرم اور علاقے کے غریب عوام کے ساتھ بڑا ظلم ہے۔ کابل حکومت کی حواس باختہ فورسز جو طالبان کے خلاف مزاحمت کرنے کی صلاحیت کھو چکی ہیں۔ شہریوں سے بدلہ لینے کیلئے شہری تنصیبات اور عوامی اجتماعات کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ کابل حکومت کی فضائیہ عوامی مقامات کے علاوہ ان اضلاع اور سرکاری عمارتوں پر بمباری کر رہی ہے۔ جو اس کے کنٹرول سے باہر ہیں اور جہاں عوام کے معاملات مقامی شہریوں کی مدد سے حل کئے جاتے ہیں۔ سرکاری اور عوامی تنصیبات قوم کی مشترکہ جائیداد ہیں اور جنگ اور امن کے دوران ان کی حفاظت کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔
کابل انتظامیہ اور اس کے حواس باختہ عسکری حکام کو معلوم ہونا چاہیے کہ ایک دن انہیں اپنے جرائم کا جواب دینا پڑے گا۔ غنی انتظامیہ سمیت امریکی کٹھ پتلیوں سے افغان طالبان کی حالیہ عسکری اور سیاسی کامیابیاں ہضم نہیں ہو رہی ہیں۔ اس لئے ان کامیابیوں اور اسلامی نظام کے نفاذ کو روکنے کیلیے یہ شرانگیزیوں میں مصروف ہیں۔ دنیا کو افغان طالبان سے بدظن و بدگمان کرنے کیلیے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ اپنے زرخرید میڈیا کے ذریعے ہمسایہ ممالک اور اندرون ملک کے لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں 90ء کی دہائی کی طرح خانہ جنگی شروع ہوجائے گی اور لاکھوں لوگ ہجرت پر مجبور ہوجائیں گے۔ قابض قوتوں اور کٹھ پتلیوں کے خلاف ملک و ملت کی آزادی، بیرونی قبضے کا خاتمہ، اسلامی نظام کا نفاذ اور ملک میں امن و امان ہی بیس سالہ جہاد کا اصل مقصد ہے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے دلیر افغان قوم نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ جو انشاء اللہ ضائع نہیں ہوں گی۔ دشمن کی جانب سے مسلط کردہ وہ جنگ بھی بند ہوجائے گی، جس کی وجہ سے روزانہ قوم کے سینکڑوں لوگ مارے جارہے ہیں۔ وحشیانہ بمباری سے گاؤں کے گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ رہے ہیں اور لوگ اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ عالم اسلام اور قوم کو قوی امید ہے کہ امریکی انخلا اور طالبان کی حالیہ بڑی کامیابیوں سے افغانستان میں جنگ بند ہوگی اور40 سالہ بحران کا خاتمہ ہوجائے گا۔ آئندہ کا افغانستان آزاد، خودمختار، پرامن اور معاشی و سیاسی لحاظ سے ترقی یافتہ اور خوشحال ہوگا۔ طالبان قیادت کی جانب سے اس بیان کے بعد اعلان کیا گیا ہے عوامی مقامات پر بمباری کا بدلہ لیا جائے گا اور یہ کہ ضالمانہ کارروائیاں نہ روکی گئیں تو صدر اشرف غنی، وزیر داخلہ جنرل عبدالستار، نائب صدر امراللہ صالح، وزیر دفاع جنرل بسم اللہ محمدی اور دیگر اہم عہدیداروں کو نشانہ بنایا جائے گا۔
دوسری جانب افغان طالبان کے مطالبے پر ترکی نے امریکی افواج کی معاونت کرنے والے افغانوں کو پناہ دینے کی امریکی درخواست مسترد کر دی ہے۔ واضح رہے کہ امریکا نے تاجکستان اور ازبکستان میں پچاس ہزار افغانوں کو بسانے اور دو سے تین سال بعد انہیں امریکا لے جانے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ تاہم امریکی معاون ان افغانوں کی اکثریت نے امریکا سے درخواست کی تھی کہ ان کا پسندیدہ ملک ترکی ہے۔ اگر وہاں انہیں پناہ کی اجازت دی جائے تو وہاں پر رہنے کیلئے تیار ہیں اور انہیں امریکا جانے کی ضرورت نہیں۔ جس پر امریکا نے بھاری مراعات کے تحت ترکی کو بیس ہزار سے زائد افغان باشندوں کو پناہ دینے کی درخواست کی۔ جسے ترک حکام نے مسترد کر دیا ہے۔ طالبان نے قطر میں ترکی حکام سے مطالبہ کیا تھا کہ یہ بیس ہزار شہری نہ صرف مترجمین اور جاسوس ہیں۔ بلکہ یہ امریکا کے تربیت یافتہ اور سی آئی اے کے ایجنٹ ہیں۔ جس سے نہ صرف ترکی کی سلامتی کو خطرہ پیدا ہوگا۔ بلکہ ترکی اور طالبان کے درمیان تعلقات بھی خراب ہو جائیں گے۔ یہی سبب ہے کہ ترکی نے امریکی درخواست ماننے سے انکار کر دیا۔