کینیڈین و جرمن سائنس دانوں کے ایک گروپ نے ٹی بیگزکے مضراثرات سے خبر دار کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر بیگز والی چائے کا تواتر کے ساتھ استعمال کرنے والے افراد کی صحت کو ناقابل تلافی نقصان ہوسکتا ہے۔
دنیا بھر میں استعمال ہونے والے ’’ٹی بیگز‘‘ نہایت سہل استعمال کے باعث زیادہ فروخت ہوتے ہیں۔ لیکن جرمن سائنسدانوں نے اپنی تحقیق میں خبردار کیا ہے کہ ٹی بیگز میں ایسے اجزا شامل ہیں، جن کا استعمال انسانی صحت کیلیے بیحد نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس میں معدے اورغذائی نالی کا کینسر بھی ہوسکتا ہے۔ سائنسی محققین کا کہنا ہے کہ ٹی بیگز کی تیاری میں ایسے اجزا کی موجودگی کا پتا چلا ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ انسانی صحت کیلیے مسائل کا سبب ہوسکتا ہے۔
نئی سائنسی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ انسان چونکہ آسانیاں ڈھونڈنے کے عادی ہوچکے ہیں، اس لئے ٹی بیگز دنیا بھر میں دستیاب ہیں۔ ٹی بیگ اب اس قدر مشہور ہو چکے ہیں کہ متمدن دنیا کے شہری اس بات کو بھولتے ہی جا رہے ہیں کہ کبھی پتی ڈبوں میں بھی دستیاب ہوا کرتی تھی۔ اگر چہ کہ یہ ٹی بیگز عام بلکہ مقبول عام ہوچکے ہیں لیکن ان کی افادیت کے ساتھ ساتھ اب ایسی تحقیق رپورٹیں بھی سامنے آئی ہیں جن میں ٹی بیگز کے انسانی صحت پرمنفی اثرات اور مختلف طبی پہلوؤں پر بات کی گئی ہے۔ ٹی بیگز کے شوقینوں کو خبر دار کیا گیا ہے کہ ٹی بیگز کی عادت اور ممکنہ کینسر کے مرض سے دور رہیں۔
عرب جریدے ’’الرجل‘‘ نے اپنی رپورٹ میں جرمن سائنسدانوں کی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ ٹی بیگز کی تیاری میں ایسا کیمیائی مواد شامل ہے جو انسانی صحت کیلیے سخت ضرر رساں ہے۔ سائنسی رپورٹ کے مطابق جس مخصوص کاغذ سے ٹی بیگز بنائے جاتے ہیں، اس میں انسانی صحت کیلیے مضر مادے بھی پائے جاتے ہیں اور بعض صورتوں میں کینسر کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔
’’سائنس ڈیلی‘‘ کی رپورٹ کے مطابق جرمن محققین نے اپنی تحقیق کیلیے چھ مختلف عالمی و علاقائی کمپنیوں کے ٹی بیگز کو مختلف طریقوں سے جانچا، جن میں تین ٹی بیگزمہنگی کمپنیوں اور تین ٹی بیگز قدرے سستی کمپنیوں کی جانب سے تیار کہے گئے تھے۔ سائنسی و فارنسک تحقیق میں یہ بات ابھر کر سامنے آئی کہ ان ٹی بیگز میں کم از کم چار ایسے اجزا شامل تھے جو کیڑے مار ادویات میں شامل و موجود ہوتے ہیں۔ جرمن و کینیڈین تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ایپی کلوروہائیڈین نامی ایک مادہ اس کاغذ میں شامل ہوتا ہے جو کمپنیوں کی جانب سے ٹی بیگز کی تیاری کیلیے استعمال کیا جاتا ہے اور یہی مادہ اس تھیلی کو انسانی صحت کیلئے نقصان دہ بناتا ہے۔ عالمی محققین کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ تھیلیوں میں لپیٹنے اور ان کو ابلتے ہوئے پانی میں ڈالنے سے نقصان دہ کیمیائی مادے پانی میں مل جاتے ہیں جو کینسر کا باعث بن سکتا ہے۔
رپورٹ میں یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ پتی کو براہ راست استعمال کرنا پیکٹ کے مقابلے میں زیادہ بہتر اور انسانی صحت کیلئے قدرے محفوظ ہے۔ سائنسی محقق ارنسٹ گیلارڈ کا کہنا ہے کہ ہمیں ایسا لگتا ہے کہ سب سے موزوں حل چائے کو تھیلیوںں میں بغیر لپیٹے استعمال کرنا ہے، مطلب No Tea Bags۔ کیونکہ محققین کے مطابق چائے کے تھیلے یا خاص طور پر وہ مواد جس سے بیگ بنائے جاتے ہیں، ایک سرطان پیدا کرنے والے مادے میں اس لئے تبدیل ہوجاتے ہیں کہ اس کاغذ کا مادہ گرم پانی اور پتی اور دودھ کے ملاپ کے بعد کینسر کے اثرات کا حامل ہوجاتا ہے اور اس کے مسلسل استعمال کے نتیجہ میں معدے اور جگر کے خلیات تباہ ہوجاتے ہیں اور بتدریج کینسر کا سبب بنتے ہیں۔
کینیڈا کی ’’اونتاریو یونیورسٹی‘‘ سے تعلق رکھنے والے محقق اور سائنسنداں سائمن کا کہنا ہے کہ اگر آپ چائے پینے کے شوقین ہیں تو پلاسٹک کے ٹی بیگ میں بند چائے پینا چھوڑ دیجیئے، کیونکہ صرف ایک مرتبہ ہی ٹی بیگ سے پلاسٹک کے اربوں ذرات چائے کے اندر داخل ہوکر ہر گھونٹ کے ساتھ آپ کے حلق سے معدے تک پہنچ جاتے ہیں اور اندرونی بافتوں کو تباہ کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ادھر کینیڈا کی میک گل یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے کہا ہے کہ اگر ہم صرف 95 درجہ سینٹی گریڈ تک گرم پانی میں ٹی بیگ ڈبوتے ہیں تو جان لیجئے کہ اس عمل سے بیگز میں موجود پلاسٹک اور کیمیکلز کے 11 ارب ذرات خارج ہوکر چائے کے کپ میں شامل ہو جاتے ہیں۔
ان کیمیائی ذروں یا پارٹیکلزکی جسامت 100 نینومیٹر سے لے کر 5 ملی میٹر تک ہوسکتی ہے، اس طرح دیگر کھانوں اور غذاؤں کے مقابلے میں یہ تعداد بہت زیادہ ہے۔ میک گل یونیورسٹی کی محقق اور ماہر نتھالی تفینک کہتی ہیں کہ نمک میں پلاسٹک ذرات معلوم کیے جاچکے ہیں جو ایک گرام نمک میں 0.005 گرام تک ہوسکتے ہیں لیکن چائے کے کپ میں ان کی مقدار ہزار گنا زیادہ ہوسکتی ہے۔ یعنی ایک کپ چائے میں 16 مائیکروگرام تک پلاسٹک موجود ہوسکتا ہے۔