ایئرپورٹ کی حدود میں اڑان ممکن نہیں- ڈرون آپریٹنگ کیلئے لائسنس اور ٹریننگ سینٹرز کا اہتمام بھی نہیں-فائل فوٹو
 ایئرپورٹ کی حدود میں اڑان ممکن نہیں- ڈرون آپریٹنگ کیلئے لائسنس اور ٹریننگ سینٹرز کا اہتمام بھی نہیں-فائل فوٹو

پاکستان میں ڈرون کیمروں کا استعمال فیشن بن گیا

پاکستان میں ڈرون کیمروں کا استعمال فیشن بن گیا۔ اَپر کلاس گھرانوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شادی بیاہ کی تقریبات اور پکنک وغیرہ کی موویز میں ان کا استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کراچی میں استعمال ہونے والے ڈرون کیمرے چینی ساختہ ہیں۔ ان کی قیمتیں ایک لاکھ روپے سے تین لاکھ روپے تک ہیں۔ جبکہ پروفیشنل ڈرون کیمرہ ’اسنائپ‘ کی قیمت 5 لاکھ روپے سے شروع ہوتی ہے۔ شہر میں ’موویک ٹو‘ ڈرون سب سے زیاد ہ پسند کیا جا رہا ہے۔ واضح قانون نہ ہونے کے سبب ڈرون کیمرے اسمگل ہو کر پاکستان پہنچتے ہیں۔

اس حوالے سے سول ایوی ایشن کے ترجمان سعد بن ایوب نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ڈرون کیمروں کو رجسٹرڈ کرنے کی پالیسی منظور نہیں ہو سکی ہے۔ ستمبر 2020ء میں ایک مسودہ بھیجا گیا تھا جو اب تک کیبنٹ میں زیر التوا ہے۔ جب تک پالیسی منظور نہیں ہو جاتی، کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔ واضح رہے کہ پالیسی بنانے کا مقصد ڈرونز کے بڑھتے ہوئے استعمال کے باعث قومی سلامتی اور تحفظ کے حوالے سے ان کے استعمال کے لیے رہنما اصول وضع کرنا ہے۔ لیکن یہ پالیسی اب تک نافذالعمل نہیں ہے۔ جبکہ ڈی جی سول نامی کمپنی کے چیف آپریٹنگ آفیسر فراز احمد نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ پاکستان بھر میں ڈرون کیمرہ استعمال تو ہو رہا ہے، تاہم اس حوالے سے کوئی قوانین موجود نہیں۔ ڈرون کیمرے پاکستان میں درآمد کرنے کے لئے منسٹری آف ڈیفینس سے اپروول لینی پڑتی ہے جو بہت لمبا اور پیچیدہ عمل ہے۔

فراز احمد کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ٹوائے ڈرون عام بِکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ نجی چینلز بھی ڈرون کیمرے استعمال تو کر رہے ہیں۔ لیکن ان کے پاس بھی اس کا لائسنس نہ ہونے کی وجہ سسٹم کا نہ ہونا ہے۔ اگر حکومت آج اس حوالے سے کام کرے تو نہ صرف لائسنسز فیس سے حکومتی خزانے کو رقم حاصل ہو سکتی ہے بلکہ مانیٹرنگ بھی ہو سکتی ہے کہ کتنے ڈرون پائلیٹ ہیں اور کتنے ڈرون کیمرے ملک میں استعمال ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں زیادہ تر ڈرون کیمرے غیر قانونی طریقے سے آ رہے ہیں جو کھیپیئے لے کر آتے ہیں اس کے علاوہ آپ آن لائن بھی کمپنی کو آرڈر کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کا پراسسس بہت ہی طویل ہے۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی نے گزشتہ سال ڈرون پالیسی لاگو کرنے کا اعلان کیا تھا، تاہم ابھی تک اس کی اصلاحات نظر میں نہیں آئیں۔ دیگر ممالک میں ڈرون اب ریسکیو، فائر بریگیڈ ، ایگریلکلچر ڈپارٹمنٹ، جان بچانے والی ادویات کی فراہمی اور پیزا ڈیلوری کیلئے بھی استعمال ہو رہا ہے۔ تاہم پاکستان میں اسکا کمرشل استعمال ابھی بہت دور ہے۔ حکومت پاکستان کو اس حوالے سے کام کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ تاکہ لوگوں کو ڈرون کیمرے کے استعمال کی آگاہی حاصل ہو اور ڈرون کو ویڈیو بنانے کے علاوہ اچھے کاموں میں بھی استعمال کر سکیں۔ جیسے موٹر وے پولیس بھی اب ڈرون کا استعمال کر رہی ہے۔ دیگر سرکاری دارے بھی ڈرون کیمرے کا استعمال کر رہے ہیں۔

ڈی جی سو کے سی ای او واجد لاکھا کا کہنا تھا کہ امریکہ، برطانیہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ڈرونز کے حوالے سے باقاعدہ ریگولیشن موجود ہے۔ برطانیہ میں سول ایوی ایشن اتھارٹی ہی ڈرونز کے استعمال کو ریگولیٹ کرتی ہے۔ وہاں پر ڈھائی سو گرام سے بیس کلو گرام تک کے ڈرونز اور پائلٹس کی رجسٹریشن ضروری ہوتی ہے۔ اسی طرح قواعد کے تحت برطانیہ میں میڈیا کی ویڈیوز کے لیے استعمال ہونے والے ڈرونز کے پائلٹس کے پاس لائنسس ہونا ضروری ہے۔ امریکہ میں بھی ڈرونز کے کمرشل استعمال اور آن لائن ڈیلیوری کے لیے ڈرون کے استعمال کے باعث فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن نے ڈرون رجسٹریشن ریگولیشن کا اجرا کیا ہے۔ جس کے تحت 250 گرام سے زائد ڈرونز کے استعمال کو ریگولیٹ کیا گیا ہے۔ جرائم کے سلسلے میں بھی ان کا استعمال دیکھا گیا ہے اورکئی جیلوں میں ڈرونز کے ذریعے اسلحہ اور دیگر اشیا پہنچانے کی شکایات کے بعد اس سلسلے میں قوانین کو سخت کیا گیا ہے۔

فلم میکر و یو ٹیوبر مستنصر حسین نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ شہر کراچی میں ڈرون کی چار اقسام دیکھنے میں آتی ہیں۔ سب سے پہلی ہے ٹوائے کٹیگری۔ جس میں نان پروفشنل ڈرون آتے ہیں۔ یہ بچوں کے کھیلنے کے ہوتے ہیں۔ ٹوائے ڈرون کی مالیت 3 ہزار روپے سے 30 ہزار روپے تک ہے۔ اس کے بعد امیچر ڈرونز ہیں جو وائی فائی بیسڈ ہوتے ہیں۔ ریڈیو لنک میں ان کی رینج بہت کم ہوتی ہے۔ 100 فٹ تک کی رینج میں یہ کام کرتے ہیں اور اس میں ایورج قسم کی تصاویر یا ویڈیو بنائی جا سکتی ہے۔ اس کے بعد آتے ہیں سیمی پروفیشنل ڈرونز جن کی رینج اور کوالٹی اچھی ہوتی ہے، جس کی بنا پر یہ پاکستان میں سب سے زیادہ استعمال ہوتے ہیں۔ اس کے نئے ماڈلز میں الٹرا ہائی ڈگینیشن کیمرے لگائے گئے ہیں۔ ڈی جے آئی کی فینٹم سیریز سب سے زیادہ مقبول و عام ہے جو دو لاکھ روپے سے تین لاکھ روپے تک میں دستیاب ہے۔ پاکستان میں کوئی ڈرون لائسنس سسٹم نہیں ہے۔

سیمی پروفیشنل میں وہ ڈرونز آتے ہیں جن کے بارے میں کمپنی دعویٰ کرتی ہے کہ ان کی 8 سے دس کلومیٹر تک رینج ہے۔ تاہم ان کی رینج 3 سے 4 کلومیٹر ہوتی ہے۔ یہ جی پی ایس بیسڈ ہوتے ہیں اور ویڈیو کوالٹی فور کے، ہوتی ہے۔ جلسے جلوس کی کوریج بھی انہی ڈرونز سے ہوتی ہے۔ اب تو شادی بیاہ کی ویڈیوز میں بھی ڈرون کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ چوتھی کٹیگیری پروفیشنل ڈورن کی ہے جس میں سب سے زیادہ پاپولر ہے ڈی جے آئی کا اسنائیپر ماڈل، جو پاکستان اسپورٹس لیگ میں بھی استعمال ہو رہا ہے۔ اسے کم بجٹ کی فلم میکنگ اور اشتہارات کی شوٹنگ میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کی قیمت 5 لاکھ روپے سے شروع ہوتی ہے اور یہ اپ گریڈ ایبل ہے۔ اس کے علاوہ چھہ پنکھے اور آٹھ پنکھے والے ڈرون بھی ہیں جو کمرشل استعمال میں آتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں ابھی ڈرون سے کمرشل سرگرمیاں نظر نہیں آئیں ہیں۔یہ ایگریکلچر ڈرون بھی کہلاتے ہیں، کھیتوں میں اسپرے وغیرہ بھی ان سے کیا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ 9 لیٹر کی ٹنکی بھی نصب کی جا سکتی ہے اور اسپر ے کے ساتھ ساتھ مانیٹرنگ بھی کی جا سکتی ہے کہ کہاں فصل خراب ہے اور کہاں صحیح ہے۔ اس ڈرون کی فلائٹ ٹائمنگ 30 منٹ ہوتی ہے، اس کے بعد بیٹری چارج کرنی پڑتی ہے جس میں تین گھنٹے لگتے ہیں۔ عام طور پر ڈرون کی اگر کومبو ڈیل لیں تو ڈرون کے ساتھ 3 بیٹریاں ملتی ہیں۔ جب ڈرون ٹیکنالوجی نئی آئی تھی تو اس وقت کی ریٹ بہت اوپر تھے اور آپریٹر بھی کم تھے۔ اب تو ہر گلی محلے میں ڈرون اڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ شادیوں میں میں اب مووی میکر ڈرون سے بھی ویڈیو شوٹ کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یو ٹیوبر حضرات بھی اسے استعمال کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ ایئرپورٹ کے اطراف سگنلز جام ہو نے کے سبب ڈرون کیمرے وہاں اڑ نہیں سکتے۔ سول ایوی ایشن کے ترجمان سعد بن ایوب نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ سول ایوی ایشن کلب میں شادی کی تقریبات میں ڈرون کیمرے والے نے شکایت کی کہ ان کا ڈرون اڑ نہیں رہا ہے۔ اس معاملے کا جب انہوں نے پتا کروایا تو معلوم ہوا کہ سیکورٹی کے سلسلے میں ائر پورٹ کے اطراف سگنلز جام ہو تے ہیں جس کے سبب ڈرون کیمرے اڑ نہیں پاتے۔ ایک ڈرون آپریٹر عاطف قادری کا کہنا تھا کہ کورونا لاک ڈاون میں ان کے کام پر بہت برا اثر پڑا ہے۔ وہ ڈرون فینٹم فور استعمال کرتے ہیں۔ اس کا کرایہ آپریٹر کے ساتھ آٹھ سے دس ہزار روپے ہوتا ہے۔

کراچی میں ڈرون کیمرے کی مرمت کے دو بڑے مراکز بھی موجود ہیں۔ ایک مکینک خالد کی دکان حیدری میں ہے۔ جبکہ دوسرے ڈرون مکینک ناظم کی صدر میں دکان ہے۔ ناظم کا کہنا تھا کہ ڈرون گرنے کی وجہ زیادہ تر اناڑی پن ہوتا ہے۔ اناڑی آپریٹر کہیں نہ کہیں ڈرون کو ٹکرا دیتے ہیں، جبکہ ڈرون سے پرندے بھی ٹکرا جاتے ہیں۔ اس سے بھی ڈرون گر جاتے ہیں اور ڈرون کی کیسنگ ٹوٹ جاتی ہے، جو نئی لگ جاتی ہے۔ ڈرون کیمرے کی بیٹریاں اور دیگر پارٹس بہت مہنگے ملتے ہیں۔ سب سے زیادہ ڈرون کیمرے چینی ساختہ کمپنی ڈی جے آئی، کے استعمال ہوتے ہیں۔ ایک نجی ٹی وی چینل کے کیمرہ مین فہد نے بتایا کہ ڈرون کیمرے سے ویڈیو شاٹ بہت اچھے آجاتے ہیں۔ اس سے نہ ہی کسی اونچی عمارت پر جانے کی ضرورت پڑتی ہے اور مخالف روشنی کی پرابلم بھی حل ہو جاتی ہے۔ ڈرون کیمرے کیلئے پاکستان میں کوئی ٹرینگ سینٹر نہیں ہے۔ جبکہ دیگر ممالک میں ڈرون کیمرا اڑانے کیلئے ٹرینگ سینٹرز ہیں۔ ایک فلم میکر مستنصر حسین نے بتایا کہ ڈرون کیمرے کیلئے پاکستان میں کوئی لائسنس یا ٹرینگ سینٹر نہیں بس سینہ بسینہ کام چل رہا ہے۔