جدید بندرگاہ تعمیرکرکے کنٹرول حماس کے حوالے کرنے کی بھی آفر- فارمولا واشنگٹن کو بھی پیش کر دیا گیا۔فائل فوٹو
 جدید بندرگاہ تعمیرکرکے کنٹرول حماس کے حوالے کرنے کی بھی آفر- فارمولا واشنگٹن کو بھی پیش کر دیا گیا۔فائل فوٹو

اسرائیل حماس کی خوشامد کرنے لگا

احمد نجیب زادے:
اسرائیل نے تحریکِ آزادیِ فلسطین حماس کی خوشامد شروع کردی ۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق تل ابیب حکومت نے راکٹ اوردیگر حملے بند کرنے کے عوض حماس کو غزہ کی تعمیر و ترقی سمیت تباہ حال انفرا اسٹرکچر بحال کرنے میں مدد کی پیشکش کردی ۔

’’امن روڈ میپ منصوبہ‘‘ میں اسرائیلی وزیر اعظم نے عندیہ دیا ہے کہ اگر حماس کی جانب سے اسرائیل کیخلاف مزاحمتی کارروائیاں اور راکٹ حملے بندکردیے جائیں اورامن معاہدہ پر مستقبل میں من وعن عمل در آمد کیا جائے تو اسرائیل نہ صرف غزہ کی تمام تباہ شدہ عمارات کو از سر نو تعمیر کرے گا۔ بلکہ غزہ کے ساحل کی ناکابندی بھی ختم کردے گا۔ تمام کراسنگز کو فلسطینیوں کیلیے کھول دیا جائے گا۔ بجلی، پانی اور زراعتی منصوبوں کو مکمل کردے گا۔ صنعتی زونز قائم کرے گا اور فلسطینی اشیائے تجارت اور مال کو بیرون ملک منڈیوں کیلیے کھلی رسائی بھی دے گا۔

اسرائیلی پیشکش میں یہ بات بھی شامل ہے کہ فلسطینی ساحل کو اسرائیلی نیول جہازوں کی نگرانی اور ناکا بندی سے آزاد کردیا جائے گا اور یہاں ایک جدید بندرگاہ کو عالمی اسٹینڈرڈ کے تحت تعمیر کرکے حماس کے حوالے کر دیا جائے گا۔ اس کے بدلہ میں اسرائیل، حماس سے مکمل امن چاہتا ہے۔ یعنی حماس سے اسرائیل کی جانب سے نہ تو آتشیں غبارے بھیجے جائیںاور نہ ہی راکٹس اور میزائلز اسرائیل کا رُخ کریں۔

اسرائیلی جریدے ’’یعودوت اہرونوت‘‘ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی کابینہ نے اس امن منصوبہ کو اسرائیل کی بقا کیلیے ناگزیر قرار دیا ہے۔ لیکن اس پر ابھی حکومتی اتحادیوں کی رائے لی جانی باقی ہے۔ مصری صحافی احمد ایاش کا کہنا ہے کہ اسرائیلی پیش کش کے پیچھے حماس کی جہادی کارروائیاں، افغان مجاہدین کی کامیابی اور خلیجی ریاستوں کی دلچسپی بھی کام کر رہی ہے۔

مصری ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیل کو حالیہ ایام میں باور کروا دیا گیاہے کہ حماس کو شکست دینا اسرائیل کیلئے مشکل کام ہے۔ احمد ایاش کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینٹ اس منصوبہ سے متعلق واشنگٹن کو بھی آگاہ کردیا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے یہ امن فارمولا خلیجی اتحادی ریاستوں کو بھی پیش کیا جاچکا ہے جس میں امارات، بحرین، کویت اور عمان سمیت اردن شامل ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اسرائیل، ایران کیخلاف فیصلہ کن کارروائی چاہتا ہے۔ اس کو ڈر ہے کہ اگر اس نے ایران کیخلاف محاذ کھولا تو لبنان سے حزب اللہ اور فلسطین سے حماس اس کیخلاف محاذ کھول سکتی ہیں۔ اس لیے اسرائیل نے تحریک مزاحمت حماس سے امن ڈیل کا ڈول ڈال دیا ہے۔ ادھر تحریک مزاحمت حماس حکومت کی جانب سے اسرائیلی میڈیا میں شائع مذکورہ خبروں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

اسرائیلی میڈیا رپورٹس کے مطابق حماس سے امن ڈیل کے بدلہ مزاحمت ترک کردینے کا یہ منصوبہ واشنگٹن کو بھی پیش کیا گیا ہے۔ لیکن واشنگٹن نے اس اسرائیلی منصوبہ پر کیا جواب دیا ہے؟ یہ ابھی معلوم نہیں۔ اسرائیلی کابینہ کے ایک رکن کا کہنا تھا کہ اگر حماس چاہتی ہے کہ غزہ اور فلسطینیوں کی حالت تبدیل ہواور معاشی ترقی ہو توحماس کو اس منصوبہ کو تسلیم کرنا ہوگا اور اسرائیل کو امن کی ضمانت دینی ہوگی۔

اسرائیلی میڈیا کے مطابق اسرائیلی وزیر خارجہ یائر لپیڈ نے حماس کی جانب سے کشیدگی میںکمی کے بدلہ غزہ میں حالات زندگی کی بہتری اورمعاشی ترقی کیلئے یہ تجویز دی ہے، جس کا مقصد حماس کے حملوں کو روکنا ہے۔ کیونکہ دونوں فریقوں میں گذشتہ ہفتہ کم از کم دوبار شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے۔ اسرائیلی قیادت یہ تسلیم کرتی ہے کہ حماس کی مسلح مزاحمتی کارروائیوں نے ان کی جان ہلکان کی ہوئی ہے۔ اسی وجہ سے اسرائیلی افواج، انٹیلی جنس اور سیکورٹی کے دیگر ادارو ں پر اربوں ڈالر خرچ کیے جاتے ہیں۔ اگر حماس ان کے ساتھ امن منصوبہ پر دستخط کردیتی ہے تو وہ غزہ کو مکمل ترقی دیں گے۔ شاہراہیں اور سڑکیں تعمیر کریں گے۔ کاروباری منظر نامہ کو بہتر بنائیں گے۔ غزہ کے ساحل پرعالمی معیار کی بندرگاہ تعمیر کی جائے گی اور اس کا کنٹرول حماس کو دیا جائے گا۔ جبکہ غزہ کے فلسطینیوں کے کاروبار کیلیے کارخانے اور پلانٹس تعمیر کئے جائیں گے اور یہاں کاروباری سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے گا۔ ساتھ ہی غزہ کا انفراسٹرکچر بھی نیا بنایا جائے گا۔

اسرائیلی میڈیا نے بتایا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نے اس منصوبہ کو انتہائی اہم قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ جب حماس سے امن معاہدہ ہوجائے گا تو اسرائیل پر حملے بند ہوجائیں گے۔ اسرائیلی سیکورٹی اور افواج پر خرچ کی جانے والی اربوں ڈالر سالانہ کی رقم بچ جائے گی۔ ’’اے ایف پی‘‘ کے مطابق اسرائیلی وزیر خارجہ یائر لپیڈ نے بتایا کہ اس منصوبے میں روزگار کے مواقع و فوائد شامل ہیں۔ اسرائیلی وزیر خارجہ نے تسلیم کیا کہ ان کا منصوبہ ابھی تک اسرائیل کی آٹھ جماعتی مخلوط حکومت میں منظور نہیں ہوا ہے۔ لیکن اسے وزیر اعظم نفتالی بینٹ کی حمایت حاصل ہے۔