فرانس کے گستاخ اور رسوائے زمانہ رسالے ’’چارلی ایبڈو‘‘ کے خلاف ایک نامور سعودی وکیل نے عدالتی جہاد شروع کیا ہے۔ سعودی عرب کے عالمی شہریت یافتہ وکیل عثمان بن خالد العتیبی نے اپریل میں گستاخ میگزین کے خلاف فرانسیسی عدالت جانے کا اعلان کیا تھا۔ اس میگزین کی جانب سے 6 ماہ قبل محسن انسانیت جناب نبی کریمؐ کی شان اقدس میں گستاخانہ مواد شائع کیا گیا تھا۔
سعودی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے العتیبی نے کہا تھا کہ ہم اس گستاخ رسالے کے خلاف عدالت جائیں گے۔ تاہم باقاعدہ مقدمہ قائم کرنے میں تاخیر اس لیے ہوئی کہ وہ اس کیس سے متعلق فرانسیسی اورعالمی قوانین کا گہرائی سے مطالعہ کرتے رہے۔ پھر وہ یورپ کے نامور نو مسلم وکلا کا ایک پینل تشکیل دینا چاہتے تھے۔
سعودی آن لائن جریدے السبق الالیکترونیہ کے مطابق پیرس کورٹ میں اب اس مقدمے کی باقاعدہ سماعت شروع ہوگئی ہے۔ گزشتہ روز پہلی پیشی تھی۔ اس بد بخت میگزین نے پہلے بھی نبی کریمؐ کے گستاخانہ کارٹون شائع کئے تھے۔ جس پر پوری دنیا کے مسلمان سخت مضطرب ہوئے تھے۔ بعدازاں چارلی ایبڈو کے دفتر پر حملہ بھی ہوا۔ لیکن اس کے باوجود رواں برس وہی کارٹون دوبارہ چھاپ کر مسلمانوں کے دل چھلنی کئے تھے۔ اس شنیع فعل کے خلاف جہاں دنیا بھر میں احتجاج ہوا تھا، وہیں سعودی عرب کے صحافتی حلقوں نے بھی اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھا گیا تھا۔ سعودی عرب کے مشہور وکیل عثمان بن خالد العتیبی نے عہد کیا تھا کہ یورپ سے وکیلوں کا ایک بڑا پینل بنا کر اس میگزین کے خلاف عدالت میں جائیں گے۔
پہلی پیشی کے موقع پر مقدمے کی کارروائی کیلیے سعودی وکیل عدالت میں پیش ہوئے، جبکہ میگزین کی طرف سے بھی ایک وکیل حاضر ہوا۔ دونوں نے اپنی اپنی طرف سے دعویٰ اور جواب دعویٰ پڑھا۔ جج نے میگزین کے وکیل سے پوچھا کہ میگزین کے مالکان خود حاضر کیوں نہیں ہوئے؟ تو وکیل نے کہا کہ وہ چند فوری مصروفیات کی بناء پر حاضر نہیں ہو سکے۔ وکیل نے وعدہ کیا کہ وہ اگلی پیشی پر ضرور حاضر ہوں گے۔ جج نے سعودی وکیل سے مقدمے کو بہتر چلانے کیلیے ثبوت مہیا کرنے کو کہا اور یہ بھی ثابت کرنے کیلیے کہا کہ ان کارٹونوں سے مسلمانوں کے کیسے جذبات مجروح ہوئے۔ سعودی وکیل نے تمام ثبوت اگلی پیشی پر پیش کرنے کا وعدہ کیا۔ اگلی پیشی آنے والے مارچ کے وسط میں ہوگی۔
عثمان العتیبی کا کہنا ہے کہ مقدمے کی ابتداء بہت ہی مثبت انداز میں ہوئی ہے۔ یہ ایک صبر آزما لمبے سفر کی ابتداء ہے، مگر اس سفر پر چل کر حرمت رسولؐ کے سامنے ایک بند باندھ دیا جائے گا اور ہر ایسے دریدہ دہن شخص کو روکنے میں آسانی ہوگی جو آزادی قول و فعل کے نام پر اہانت رسول کا مرتکب ہوتا ہے۔ وکیل کا کہنا تھا کہ آزادی اظہار کی کوئی اخلاقی قیمت ہونی چاہئے، مختلف قوموں کا آپس میں احترام کے ساتھ معاشرت کا سبب ہونا چاہئے نا کہ ایک دوسرے سے کراہت، ثقافتی جنگ اور تہذیب و تمدن کا ٹکراؤ ہونا چاہئے۔ عثمان العتیبی کا کہنا ہے کہ اس رسالے کے خلاف قائم مقدمے کا دورانیہ چھوٹا نہیں ہوگا اور نہ ہی اس پر کوئی کم محنت کرنی پڑے گی۔ بلکہ ہو سکتا ہے کہ مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے ایک عدالت سے دوسری بڑی عدالتوں تک کا بھی سفر کرنا پڑے۔ لیکن یہ راستہ ایک مبارک راستہ ہوگا، جو نہ صرف اس رسالے کیلئے سبق بنے گا، بلکہ ہر اس کو لگام دینے کے کام آئے گا جو امت اسلام کے نبی اکرمؐ کو ہلکا لیتے ہیں۔ اس مقدمے کا فیصلہ آئندہ کیلئے ایک سزا اور ضابطہ بنانے کے کام آئے گا۔
عثمان العتیبی کا یہ بھی کہنا تھا کہ فرانس کا قانون کسی ایسی توہین کو جرم ہی نہیں سمجھتا جو کسی کے دین یا عقیدے کے بارے میں ہو۔ ہمارا ہدف فرانسیسی قانون کو بتانا ہوگا کہ انہیں یہ قانون بنانا پڑے گا۔ کیونکہ یورپی یونین کا حقوق انسانی کمیشن 2018 میں اعتراف کر چکا ہے کہ اہانت رسولؐ ہرگز ہرگز آزادی اظہار نہیں ہے۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ یورپی یونین کے حقوق انسان کمیشن کا بیان کسی ملک کا عدالتی قانون نہیں بن سکتا۔ وکیل عثمان العتیبی کا کہنا ہے کہ ان کی یہ کوشش رہے گی کہ اس کو عالمی قانون کا درجہ دلوایا جائے۔ عثمان العتیبی کا کہنا ہے کہ وہ بغیر کسی رکاوٹ کے اپنے اس ہدف کے حصول کیلئے کوشش جاری رکھیں گے اور وہ اپنے عالی القدر رسول دو عالمؐ کی عزت و حرمت کی حفاظت کیلئے کسی حد تک بھی جانے کے لیے تیار ہیں۔ وہ ’’چارلی ایبڈو‘‘ میگزین کو قرار واقعی سزا دلوا کر دیگر اقوام عالم کیلیے نشان عبرت بنوائیں گے۔