یورپی یونین نے فیس بک کو ناقابل بھروسا قرار دیے دیا۔ فیس بک، انسٹاگرام اور واٹس اپ سروسز کی گھنٹوں معطلی کے بعد دنیا بھر میں لاکھوں سوشل میڈیا صارفین اورکاروبار کو شدید مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ اس تعطل اور پریشانی پر یورپی یونین نے متبادل کمپنیوں اور ایپس کی ضرورت اشد قرار دی ہے۔
یورپی یونین نے کہا ہے کہ فیس بک پراب مزید بھروسا نہیں کیا جا سکتا۔ فیس بک چاہے کتنی ہی بڑی کمپنی کیوں نہ ہو، لیکن اب اس کے متبادل کی ضرورت مسلم ہے۔ یورپی یونین کی مسابقتی کمشنر مارگرٹ وسٹی گر نے میڈیا گفتگو میں کہا کہ فیس بک بندش نے چند بڑی کمپنیوں پر انحصار کرنے کے بد ترین نتائج ظاہر کردیئے ہیں۔ اس لئے اب ان کمپنیوں کے متبادل کی ضرورت در پیش ہے۔ ادھر سابق ملازمین کے الزامات پر فیس بک حکام کو امریکی سینیٹ کی خصوصی کمیٹی کے سامنے پیش ہونا پڑ سکتا ہے۔ جبکہ صارفین کے ڈیٹا کی لیکج اور کاروباری آئوٹ لٹس کے نقصان پر فیس بک کو جرمانوں کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ فیس بک کی دو سابقہ اعلیٰ عہدیداروں نے فیس بک پر تعصب، سماجی بگاڑ، کاروباری بد دیانتی اور نسل پرستی کی شکایات کا انبار لگا دیا ہے۔
یورپی یونین کی مسابقتی کمشنر نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا کہ ہم ٹیکنالوجی مارکیٹ میں متبادل اور آپشن چاہتے ہیں اور ہمیں چند بڑے کھلاڑیوں پر بھروسا بالکل نہیں کرنا چاہیئے۔ وسٹی گر، نے پچھلے سال ڈیجٹل مارکیٹس ایکٹ کے نام سے ایک مسودہ قانون کی تجویز بھی پیش کی تھی جس میں امیزون، ایپل، فیس بک اور گوگل کے ممنوعہ اور مجوزہ امور کی فہرست مرتب کی گئی تھی، تاکہ وہ اپنے بنیادی کاروباری ماڈل کو تبدیل کر سکیں اور مزید مسابقتی مقابلوںکی اجازت دی جا سکے۔ یہ قابل ذکر ہے کہ گزشتہ روز فیس بک پر آنے والی بندش نے کمپنی کے ساڑھے تین ارب صارفین کو سوشل نیٹ ورکنگ اور میسج اِنگ سروسز واٹس اپ، انسٹاگرام اور میسنجر تک رسائی سے محروم کر دیا تھا۔ فیس بک کی عالمی بندش ایک ایسے موقع پر سامنے آئی، جب امریکی سینیٹ کی خصوصی کمیٹی کے روبرو ایک سابق اعلیٰ فیس بک عہدیدار نے فیس بک پر نسلی تعصب، منافع کیلئے ناجائز حربوں کے استعمال سمیت تعصب برتنے اور نا اہلی کے الزامات عائد کئے۔
فیس بک کی سابقہ عہدے دار فرانسس ہائوگن نے امریکی سینیٹ کی خصوصی کمیٹی کے روبرو کہا کہ فیس بک بچوں کو شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔ امریکی میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ یو ایس سینیٹ کی یہ اسپیشل کمیٹی نہ صرف فیس بک کیخلاف شکایات سن رہی ہے بلکہ اگلے مرحلہ پر سینیٹ کمیٹی فیس بک کیخلاف ایکشن بھی لینا چاہتی ہے۔ جس میں فیس بک کو محدود کرنے، اس پر جرمانہ سمیت دیگر اقدامات شامل ہوسکتے ہیں۔ جبکہ یورپی یونین کی جانب سے فیس بک کو ناقابل بھروسا قرار دینے اور اس کے متبادل کے طور پر ایپلی کیشن لانے کے مطالبہ نے بھی فیس بک کیلئے ممکنہ مسائل کھڑے کردئے ہیں۔ فیس بک کی سابقہ عہدے دار نے الزام عائد کیا کہ فیس بک جمہوری اقدار کو نقصان پہنچا کر معاشرے میں تقسیم پیدا کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فیس بک کی انتظامیہ کو معلوم ہے کہ اس پلیٹ فارم کو کیسے محفوظ بنایا جا سکتا ہے، لیکن وہ منافع کی غرض سے ایسا کرنے سے گریزاں ہے۔ فرانسس ہائوگن نے کہا کہ فیس بک نت نئے اور ٹیکنیکل حربوں کی مدد سے مال کما رہی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ فیس بک انتظامیہ عوامی مفاد پر کاروباری مفاد کو ترجیح دیتی ہے۔ ادھر امریکا و یورپی سماجی سائیٹس کی معلومات کے مطابق لاکھوں صارفین نے فیس بک، انسٹا گرام اور واٹس اپ ایپلی کیشنز کو چھوڑ کر دوسری ایپلی کیشنز کو ڈائون لوڈ اور استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔
’’یو ایس اے ٹوڈے‘‘ کے مطابق فیس بک کی چند گھنٹے کی خرابی کے باعث میسیجنگ ایپلی کیشن ’’ٹیلی گرام‘‘ پر ایک روز میں 7 کروڑ صارفین کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ایپلی کیشن ’’مانیٹرنگ فرم‘‘ کا کہنا ہے کہ امریکا میں ٹیلی گرام، ڈائون لوڈنگ کے56 ویں نمبر سے جمپ لگا کر پانچویں نمبر پر آگیا ہے جس سے یقین کیا جاتا ہے کہ فیس بک سے صارفین منہ موڑ رہے ہیں۔
دوسری جانب یورپی میڈیا کا کہنا ہے کہ فیس بک نے بھارت میں اپنے کاروبار کے امکانات پر منفی اثرات مرتب ہونے اور عملے کو خطرے میں ڈالنے کے پیش نظر انتہا پسند گروپ پر پابندی عائد نہیں کی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنمائوں کی اشتعال انگیز اور نفرت بھری تقاریر اور مسلم مخالف ویڈیوز کو ہٹانے سے دانستہ گریز کیا۔
امریکی جریدے ’’وال اسٹریٹ جرنل‘‘ کے مطابق رواں سال کے شروع میں فیس بک حکام نے قرار دیا تھا کہ بجرنگ دل گروپ بھارت بھر میں اقلیتوں کے خلاف تشدد کی حمایت کرتا ہے اور اس گروپ کے فیس بک استعمال کرنے پر پابندی لگنی چاہیے۔ تاہم اس کے بعد فیس بک کی جانچ پڑتال کرنے والی ٹیم کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا تھا کہ اس قسم کا اقدام گروپ اور بھارت کی حکمران ہندو قوم پرست جماعت کے سیاست دانوں کو مشتعل کر سکتا ہے۔