امت رپورٹ:
پاکستان کے پالیسی سازوں سے رابطے میں رہنے والے اہم ذرائع نے ان افواہوں کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا ہے، جس میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ غدارِ وطن الطاف حسین، پاکستان کے اہم لوگوں کے ساتھ رابطے میں آگئے ہیں اورانہیں گرین سگنل مل گیا تو کراچی کی سیاست دوبارہ ان کے حوالے کی جاسکتی ہے۔
واضح رہے کہ پچھلے چند ہفتوں سے بالخصوص سوشل میڈیا پراس نوعیت کی خبریں چلائی جارہی ہیں۔ تاہم اہم ذرائع کا کہنا ہے کہ الطاف حسین کا باب اب بند ہوچکا ہے اور یہ چیز اب ریاستی پالیسی کا حصہ ہے یعنی ہر آنے والے کو اسی پر چلنا ہے۔
ذرائع نے اس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جیسے غدارِ وطن شکیل آفریدی کو امریکہ کے حوالے نہ کرنے سے متعلق ایک ریاستی پالیسی اپنائی جاچکی ہے۔ حالانکہ شکیل آفریدی کی رہائی کے لئے اوباما سے لے کر ٹرمپ اور اب جوبائیڈن سمیت ہر امریکی صدر نے پاکستان پر حددرجہ دبائو ڈالا، لیکن ان کی کوششوں کا تاحال نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا ہے۔ کیونکہ ریاستی سطح پر یہ طے کیا جاچکا ہے کہ ملکی ساکھ کو دائو پر لگانے والے شکیل آفریدی کو ریلیف نہیں دیا جائے گا اور تمام تر امریکی دبائو کے باوجود ہر آنے والا حکمراں اس پالیسی پرعمل کر رہا ہے۔
یاد رہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی نے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی موجودگی کی تصدیق کرنے کے لئے جعلی ہیپاٹائٹس ویکسین مہم چلائی تھی۔ تاکہ اسامہ بن لادن یا ان کی فیملی کے کسی فرد کے ڈی این اے نمونے حاصل کرکے امریکی سی آئی اے کی مدد کی جاسکے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ الطاف حسین کے حوالے سے بھی ریاستی سطح پر یہ طے کیا جاچکا ہے کہ بانی متحدہ نے ریڈ لائن کراس کی۔ لہٰذا انہیں معافی نہیں ملے گی۔ الطاف حسین نے نا صرف بائیس اگست دو ہزار سولہ کو پاکستان مخالف نعرے لگائے، بلکہ قومی سلامتی کے اداروں کے پاس اس بات کے ٹھوس دستاویزی ثبوت موجود ہیں کہ الطاف حسین کی زیر سرپرستی ایم کیو ایم، بھارتی انٹیلی جنس ’’را‘‘ سے مالی امداد حاصل کرکے کراچی میں خونریزی کے لئے اسلحہ خریدتی رہی۔
واضح رہے کہ الطاف حسین کے بعض ہمدرد یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ عسکری اداروں اور اہم شخصیات کے خلاف نواز شریف اور مریم نواز نے بھی زہر اگلا۔ اسی طرح دیگر پارٹیوں کے بعض رہنمائوں نے بھی یہی عمل کیا، لہٰذا جب ان کے خلاف حسب توقع ایکشن نہیں لیا گیا تو پھر الطاف حسین کو بھی رعایت ملنی چاہئے۔ پھر یہ کہ وہ اپنے پاکستان مخالف نعروں پر کئی بار معافی مانگ چکے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس طرح کی آرا اہم ریاستی اداروں تک بھی پہنچائی گئی ہیں۔ لیکن الطاف حسین کا معاملہ اس لئے مختلف ہے کہ دیگر سیاسی رہنمائوں نے زبانی کلامی الزامات لگائے۔ بانی متحدہ کی طرح عملی طور پر پاکستان کی بنیادیں کھوکھلی کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ان رہنمائوں میں سے کسی کے خلاف اب تک پاکستان میں دہشت گردی اور تخریب کاری کرانے کی خاطر بھارت سے پیسہ اور اسلحہ لینے کے ثبوت اداروں کو نہیں ملے ہیں اورنہ ہی کسی کے ہاتھ ہزاروں بے گناہ لوگوں کے خون سے رنگے ہیں۔
دوسرا یہ کہ الطاف حسین تاحال پاکستان مخالف سرگرمیوں میں عملی طور پر ملوث ہیں۔ دو ہزار بانوے کے کراچی آپریشن میں نمایاں کردار ادا کرنے والے ایک اہم افسر کا اس بارے میں کہنا ہے کہ اس وقت کا آپریشن ناکام ہوگیا تھا، لیکن دو ہزار پندرہ میں نائن زیرو پر چھاپے اور اس کے بعد ایم کیو ایم کے خلاف شروع ہونے والا آپریشن انتہائی کامیاب رہا۔ پہلی بار کراچی کے عوام نے ادراک کیا کہ شہر کو الطاف حسین نے یرغمال بنا رکھا تھا۔ یعنی اس آپریشن کو نا صرف شہر کے عوام کی تائید حاصل ہوئی بلکہ پاکستان میں موجود ایم کیو ایم کی صف اول کی قیادت نے بھی اعتراف کیا کہ الطاف نے پارٹی کو غلط راستے پر ڈال دیا تھا۔ اسی وجہ سے یہ آپریشن کامیاب رہا اور اس کے نتیجے میں کراچی کی روشنیاں بحال ہوئیں۔ الطاف حسین کو دوبارہ کراچی کی سیاست میں داخل کرنے کا سیدھا مطلب یہ ہوگا کہ اتنی کاوشوں سے کراچی میں لائے جانے والے امن کو خود تباہی کی طرف دھکیل دیا جائے۔
الطاف حسین کی کراچی میں دوبارہ انٹری سے متعلق افواہوں پر ایک اور باخبر ذریعے کا دو ٹوک کہنا تھا ’’ایک فیصد بھی امکان نہیں۔‘‘ جب ذریعے سے دریافت کیا گیا کہ پھر اس طرح کی افواہوں کے پیچھے کیا عوامل کارفرما ہیں؟ تو ذریعے کا کہنا تھا ’’اصل میں الطاف حسین کا باب بند کئے جانے کے بعد یہ سوچا گیا تھا کہ کراچی کے سیاسی خلا کو ایم کیو ایم پاکستان، پی ایس پی اور پی ٹی آئی مل کر پُر کردیں گی۔ تاہم بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا۔ پی ایس پی نے ایم کیو ایم سے نکالے کرمنلز بھرتی کرلئے اور پھر اسے توقع کے مطابق عوامی پذیرائی نہیں مل سکی۔ یوں یہ تجربہ ناکام ہوگیا۔
اسی طرح پی ٹی آئی کو پہلی بار کراچی میں مینڈیٹ ملا، لیکن تین برس سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اس کے منتخب نمائندوں کی کارکردگی صفر ہے۔ زیادہ توقعات ایم کیو ایم پاکستان سے جوڑی گئی تھیں۔ تاہم ایم کیو ایم پاکستان اندرونی گروپ بندی کے سبب مسلسل انتشار کا شکار ہے۔ یوں وہ کراچی کے عوام کو ریلیف دینے میں ناکام رہی اور اس کے نتیجے میں جہاں ایک طرف کراچی کے سیاسی خلا کو پُر نہیں کیا جاسکا، وہیں شہر کے عوام کی احساس محرومی بڑھنے لگی اور اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ یہی بات پالیسی سازوں کے لئے باعث تشویش ہے۔ چونکہ کراچی پاکستان کا معاشی مرکز ہے۔ اس لئے اس سیاسی خلا کا مزید برقرار رہنا ملکی مفاد میں نہیں۔
‘‘ ذریعے کے بقول ایم کیو ایم پاکستان کو متحرک کرنے کے لئے ہی اب کوششیں ہو رہی ہیں۔ خاص طور پر جس طرح کنٹونمنٹ کے الیکشن میں ایم کیو ایم کو ووٹ نہیں پڑے، اس سے پارٹی سے کراچی کے عوام کی بے زاری کا اندازہ بخوبی ہوجاتا ہے۔ ذریعے نے بتایا کہ ایم کیو ایم پاکستان کو واضح سگنل دیا جاچکا ہے کہ بلدیاتی الیکشن سے قبل اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرکے منظم ہوجائے تاکہ شہر میں تاحال برقرار سیاسی خلا کو ختم اور کراچی کے عوام کی احساس محرومی کو دور کیا جاسکے۔
ذریعے کے مطابق ایم کیو ایم پاکستان کے سابق گورنر عشرت العباد اور فاروق ستار سے رابطے اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ اس سگنل کو آخری وارننگ کے طور پر لے کر کوشش کی جارہی ہے کہ بلدیاتی الیکشن سے قبل ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں کو ایک کرکے بھرپور طریقے سے بلدیاتی الیکشن میں اترا جائے۔ اور کنٹونمنٹ الیکشن کی کہانی دہرانے سے بچاجائے۔
ذریعے کے مطابق ایم کیو ایم پاکستان کو خدشہ ہے کہ اگر تازہ انتباہ کے باوجود کوئی رزلٹ نہیں دیا جاتا تو پھرکہیں الطاف حسین کو کراچی کی سیاست میں دوبارہ انٹری کی اجازت نہ دے دی جائے۔ سوشل میڈیا پر الطاف کی واپسی سے متعلق افواہیں اسی تناظر میں چل رہی ہیں۔ کیونکہ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما ، اپنے ان خدشات یا خوف کا اظہار جن نجی محفلوں میں کر رہے ہیں، وہاں سے بات دیگر تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ واضح رہے کہ سندھ میں بلدیاتی الیکشن کا شیڈول ابھی جاری نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم کراچی کے موجود ایڈمنسٹریٹر اور سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت اگلے برس فروری یا مارچ میں بلدیاتی الیکشن کرانے کے لئے تیار ہے۔
اس معاملے سے آگاہ ایک اور ذریعے کا کہنا ہے کہ پاکستان کی اکانومی لائف لائن ہونے کے ناطے کراچی کے سیاسی خلا کو فوری پُر کرنا اولین ترجیح ہے۔ ظاہرہے کہ اس کے لئے پہلا آپشن تعلیم یافتہ اردو اسپیکنگ کمیونٹی ہے، جس نے قیام پاکستان کے بعد ملکی معیشت کا پہیہ چلایا۔ تاہم الطاف حسین نے ذاتی مفاد کی خاطر نوجوان نسل کو گمراہ کیا۔ اس کے سبب ساری گڑبڑ ہوئی۔ کراچی کے عوام نے ادراک کرلیا ہے کہ ان کی تباہی میں الطاف حسین نے کتنا حصہ ڈالا۔ لہٰذا وہ متبادل قیادت کے لئے ذہن بناچکے ہیں۔ لیکن یہ متبادل قیادت انہیں مل نہیں پارہی۔ اب اس کا حل سوچا جارہا ہے کہ کسی طرح ایم کیو ایم پاکستان میں پڑھے لکھے نوجوانوں کو لاکر نئی شکل دی جائے، جس میں پارٹی کے پرانے رہنما اپنا کردار ادا کریں۔ اور یوں شہر کے عام آدمی کو کنوینس کیا جاسکے کہ متبادل قیادت ان کے اعتماد پر پورا اترسکتی ہے۔ پس پردہ ساری بھاگ دوڑ اسی لئے ہو رہی ہے۔