عمران خان نے سابق چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد کا نام نگراں وزیر اعظم کیلیے تجویز کیا۔فائل فوٹو
عمران خان نے سابق چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد کا نام نگراں وزیر اعظم کیلیے تجویز کیا۔فائل فوٹو

کیا سابق آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف مقدمہ درج ہوا ۔چیف جسٹس

اسلام آباد:سپریم کورٹ میں سانحہ اے پی ایس سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی ۔ دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان  نے ریمارکس دیے کہ ملک میں اتنا بڑا انٹیلی جنس سسٹم ہے ، اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں ، دعویٰ ہے ہم دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ہیں ، اپنے لوگوں کے تحفظ کی بات آئے تو انٹیلی جنس کہاں چلی جاتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بچوں کو اسکول میں مرنے کیلیے نہیں چھوڑ سکتے ، چوکیدار اور سپاہیوں کے خلاف تو کارروائی کر دی گئی ، اصل کارروائی تو اوپر سے شروع ہونی چاہیے ، اوپر والے تنخواہیں اور مراعات لے کر چلتے بنے ، کیا سابق آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف مقدمہ درج ہوا ۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ یہ ممکن نہیں کہ دہشتگردوں کو اندر سے سپورٹ نہ ملی ہو،  سننے میں آرہا ہے کہ ریاست کسی گروہ سے مذاکرات کر رہی ہے ؟، کیا اصل مجرموں تک پہنچنا اور انہیں پکڑنا ریاست کی ذمہ داری نہیں ۔   چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا  کہ کیا وزیر اعظم نے عدالتی حکم پڑھا ہے ؟۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ سانحہ اے پی ایس سکیورٹی کی ناکامی تھی ، کیس میں رہ جانے والے خلاء سے متعلق آپ کو آگاہ کرنے کو کہا تھا ؟۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سابق آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف انکوائری رپورٹ میں کوئی فائنڈنگ نہیں ، وزیر اعظم کو عدالتی حکم نہیں بھیجا تھا ، وزیر اعظم کو عدالتی حکم سے آگاہ کروں گا،  ہم تمام غلطیاں تسلیم کرتے ہیں ، دفتر چھوڑ دوں گا لیکن کسی کا دفاع نہیں کروں گا، اعلیٰ حکام کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی ۔