بیان حلفی میں کیا لکھا ہے،رانا شمیم بھول گئے

اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق چیف جج گلگت بلتستان اور دیگرکیخلاف توہین عدالت کیس میں سابق جج رانا شمیم کو7 دسمبر تک تحریری جواب جمع کرانے اور اصل بیان حلفی بھی پیش کرنے کا حکم دیدیا۔

اسلام آباد ہائیکیورٹ نے سابق چیف جج رانا شمیم اور دیگر کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس ہائیکورٹ نے استفسار کیا آپ بیان حلفی کے مندرجات کو تسلیم کرتے ہیں ؟ جس پر سابق چیف جج رانا شمیم نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم جو بیان حلفی رپورٹ ہوا، وہ کونسا ہے ؟۔

رانا شمیم نے کہاکہ انہوں نے اخبار کو کوئی بیان حلفی نہیں دیا، ان کا بیان سربمہر تھا جو پتہ نہیں کیسے افشا ہوگیا۔ میرا بیان حلفی سیل شدہ اور لاکر میں ہے، مجھے جواب جمع کرانے کیلیے 2 ہفتے کا وقت دیا جائے۔ عدالت نے رانا شمیم کو 7 دسمبر تک جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا کہ پہلی دفعہ انہوں نے کہا ہے کہ بیان حلفی کسی کو نہیں دیا تھا ، عدالت ان کو کہے کہ اصل بیان حلفی عدالت کے سامنے پیش کریں، یہ دس سال پہلے کی دستاویز نہیں دس نومبر کی ہے اور اس وجہ سے عدلیہ کے خلاف مہم چل رہی ہے، کس نے بیان حلفی لکھا وہ تو سامنے آئے، میری درخواست ہے کہ یہ ریکارڈ پر آجائے کہ یہ نہیں جانتے کہ بیان حلفی میں کیا تھا، رانا شمیم کو تین سال پہلے کا تو یاد تھا کہ کس نے کیا کہا تھا لیکن بیس دن پہلے کا بیاں حلفی یاد نہیں، جس شخص نے بیان حلفی دیا اسے یاد نہیں کہ بیان حلفی میں کیا لکھا ہے، اگر انہیں نہیں معلوم تو پھر یہ بیان حلفی کس نے تیار کروایا؟۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ رانا شمیم اصل بیان حلفی کے ساتھ تحریری جواب داخل کریں،رانا صاحب کی آج کی اسٹیٹمنٹ بہت خطرناک ہے، سیاسی بیانیے کیلیے عدالت کو استعمال نہیں کرنا چاہیے، اصل بیان حلفی مختلف ہوا تو اخبار پربڑا سوالیہ نشان لگ سکتا ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ نے تین سال بعد بیان حلفی دیا، آپ نے کسی مقصد کے لیے لندن میں دیا ہو گا ، یہ آپ کا بیان حلفی ہے یا نہیں وہی آپ نے جواب میں لکھنا ہے، مقصد کیا تھا بیان حلفی کا وہ آپ نے بتانا ہے ، نا صرف اس عدالت بلکہ تمام ججز کو آپ کے بیان حلفی نے مشکوک بنادیا ہے، یہ سنگین توہین عدالت ہے ، عدالت نے ماضی میں کوشش کی کہ عوام کا اعتماد عدلیہ پر بحال ہو، آپ بتائیں کہ بیان حلفی ہے یا نہیں۔

ثاقب نثار سے متعلق بیان حلفی دینے والے رانا شمیم نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں حیران کن بیان دیتے ہوئے کہا کہ میرا جو بیان حلفی اخبار میں چھپا وہ ابھی تک دیکھا بھی نہیں ، اخبار نے خبر چھاپنے کے بعد مجھ سے رابطہ کیا تھا، میرا بیان حلفی بند تھا پتہ نہیں کس نے ان کو دے دیا ، میں نے ان کو بیان حلفی کی کاپی نہیں دی۔

اخبار کے مالک نے شوکاز نوٹس پر ہائی کورٹ میں جواب جمع کراتے ہوئے کہا کہ جہاں تک متعلقہ خبر کی بات ہے، میں اپنے ایڈیٹر کی بات سے متفق ہوں، ایڈیٹر نے خبر کی اشاعت سے قبل بتایا کہ وہ مطمئن ہیں کہ فریقین کا موقف معلوم کیا گیا ہے، استدعا ہے کہ توہین عدالت کا شوکاز نوٹس واپس لیا جائے۔

ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ رانا شمیم اوریجنل بیان حلفی کے ساتھ تحریری جواب داخل کریں۔ عدالت نے اخبار کے ایڈیٹر انچیف، ایڈیٹر اور ایڈیٹر انوسٹی گیشن کے جوابات عدالتی معاونین کو فراہم کرنے کی ہدایت بھی کی۔

ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ توہین عدالت سے متعلق اہم معیار ہم نے فردوس عاشق اعوان کیس میں طے کر دیے ، پچھلی سماعت پر بھی کہا تھا کہ یہ ہمارا بھی احتساب ہے ، آزادی اظہار رائے کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ ڈیوٹیز بھی ہیں۔

عدالت میں رانا شمیم کے بیان حلفی کی کاپی رانا شمیم کے پاس بھی موجود نا ہونے کا انکشاف ہوا۔ رانا شمیم نے کہا کہ کاپی برطانیہ میں ہی ہے، 7 دسمبر تک دستاویزات نہیں پہنچ سکتیں، لہذا میرا شوکاز پر جواب ہی آسکے گا، بیان حلفی کی دستاویز نہیں آسکے گی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ دستاویز بھجوائیں ہم وزارت خارجہ سے پراسس کرا دیں گے۔

عدالت نے سات دسمبر تک رانا شمیم کو اصل بیان حلفی اور شوکاز نوٹس کا جواب جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 7دسمبر تک ملتوی کردی۔