طاغوتی قوتوں کی تمام تر سازشوں اور دجالی میڈیا کے شیطانی پروپیگنڈے کے باوجود اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے۔ برطانوی میڈیا نے ایشیا کے سب سے ترقی یافتہ ملک ’’جاپان‘‘ میں اسلام کی اشاعت پر روشنی ڈالی ہے۔
میڈل ایسٹ آئی نے اس حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ جس کے مطابق جاپان میں مسلمانوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، جو صرف تارکین وطن کی وجہ سے نہیں، بلکہ جاپانیوں کے اسلام قبول کرنے کی وجہ سے بھی ہے۔ اس ملک میں 1980ء کی دہائی میں مساجد کی تعداد صرف 4 تھی، جو اب بڑھ کر 110 ہوگئی ہے۔ جاپان کے چھٹے سب سے بڑے شہر کوبا میں اس ملک کی سب پہلی مسجد 1935ء میں تعمیرکی گئی تھی، اس کے 3 برس بعد جاپان کی سب سے بڑی مسجد ’’ٹوکیو کامی‘‘ کی تعمیر ترکوں نے 1938ء میں کی تھی، جس کی 2000ء میں تعمیرنوکی گئی۔ ٹوکیو کی اس مرکزی مسجد میں 1200 نمازیوں کی گنجائش ہے۔
میڈل ایسٹ آئی نے اسلام اور مسلمانوں کے امور کے ماہر ایک جاپانی پروفیسر ہیروفومی تاناڈا کے حوالے سے کہا ہے کہ جاپانی جزیرے میں مسلمانوں کی تعداد 2010ء میں ایک لاکھ 10 ہزار سے ایک لاکھ 20 ہزار کے درمیان تھی، جبکہ 2020ء میں یہ تعداد دگنی ہو کر 2 لاکھ 30 تک پہنچ گئی، جن میں سے ایک لاکھ 83 ہزار غیر ملکی ہیں، جن میں سے یشتر کا تعلق انڈونیشیا، پاکستان اور بنگلہ دیش سے ہے، تقریباً 60 ہزار عرب مسلمان ہیں، جبکہ تقریباً 46 ہزار جاپانی نومسلم ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافے کے باوجود وہ اب بھی جاپانی آبادی کا بہت کم حصہ ہیں، اس لیے کہ جاپان کی آبادی 126 ملین ہے، جن میں سے زیادہ تر شنٹو اور بڈھشٹ مذہب کی پیروی کرتے ہیں۔ تاناڈا کے مطابق جاپانیوں کی طرف سے شادی کے لیے بھی اسلام قبول کرنے کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ پروفیسر تاناڈا کا ماننا ہے کہ جاپان میں اسلاموفوبیا موجود ہے۔ اس کی وجہ عالمی ذرائع ابلاغ کی پھیلائی منفی خبریں ہیں، جو مسلمانوں کا تعلق دہشت گردی اور شدت پسندی سے جوڑ کر انہیں بدنام کرتے ہیں۔ پروفیسر تاناڈا ستر کی دہائی میں مصر میں رہے ہیں۔ وہ جاپانی مسلمانوں پر ایک کتاب بھی تصنیف کرچکے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اگلی دو نسلوں میں جاپانی میں مسلمانوں کی تعداد مزید بڑھ جائے گی۔ رپورٹ کی تیاری کے دوران مڈل ایسٹ آئی نے کئی جاپانی مسلمانوں سے ملاقات بھی کی ہے۔ جن میں محمد شکیر مصری بھی ہیں۔ وہ اسی کی دہائی میں جاپان آئے۔ اس وقت جاپان میں کوئی بھی عربی شخص نہیں تھا۔ شکیر کی بہن نے ایک جاپانی نومسلم سے شادی کی تھی، یہ شخص جامعہ ازہر کے وزٹ پر آکر مسلمان ہوگیا تھا۔
شکیر ایک فضائی کمپنی کے ملازم تھے۔ دوبارہ جب وہ جاپان گئے تو وہیں بہن کے پاس ٹوکیو میں رہنے کا ارادہ کیا۔ اسی سال ان کی اپنی ہونے والی بیوی ’’یوکو‘‘ سے ملاقات ہوئی۔ یوکو کے سامنے جب اسلام کا تعارف پیش کیا تو وہ فوراً مسلمان ہوگئی اور پھر 1988ء میں دونوں نے شادی کرلی۔ اب یہ جوڑا صاحب اولاد ہے۔ اسی طرح امینہ عدیلی (27 سالہ) کا تعلق فلسطین سے ہے، وہ کورونا وبا سے قبل جاپان چلی گئی، اس نے ایک جاپانی نومسلم شوتارو اونوسے شادی کرلی۔ ان دونوں کی ملاقات اس وقت ہوئی تھی، جب شوتارو سیاحت کیلئے فلسطین آیا تھا۔
امینہ کا کہنا ہے کہ اب میں جاپان میں بہت خوش ہوں، یہاں حقیقی معنوں میں انسانیت کا احترام ہے۔ مسلم آبادی اور مسلمان سیاحوں کی بڑھتی تعداد کے پیش نظر اب جاپانی حکومت ان کے لئے خصوصی اقدامات کر رہی ہے۔ اب تک حلال کھانوں کے 800 ریسٹورنٹس کھل چکے ہیں۔ جہاں حرام غذائیں اور شراب پیش نہیں کی جاتی۔ جاپان میں مقیم انڈونیشین خاتون مارلیزا مادونگ کے مطابق یہاں کئی ادارے مسلمانوں کی خدمت کے لئے کوشان ہیں۔ جبکہ جاپانی حکومت اور اس کے ادارے بھی مسلمانوں کو خوش آمدید کہنے ان کیلئے زیادہ سے زیادہ سہولیات کا انتظام کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود مارلیزا کا کہنا ہے کہ میں کسی جاپانی سے ہرگز شادی نہیں کروں گی، یہاں تک کہ وہ میرے ساتھ ملائیشیا میں سیٹل ہونے کا فیصلہ نہ کرلے۔
واضح رہے کہ جاپان میں اسلام کی آمد گیارہویں صدی عیسوی سے ہوئی، ایک مسلم نقشہ ساز جس کا نام محمود کاشغر تھا، نے ایک سفر کے بعد جو نقشہ تیار کیا، اس میں جاپان کو دکھایا گیا ہے اور اس کی تفصیلات میں اس نے واضح طور پرجاپان کو وک وک کے نام سے ظاہر کیا، جس میں تحریر تھا کہ یہ سرزمین بے انتہا وسائل سے مالا مال ہے، یہاں سونے کے ذخائر ہیں، جبکہ یہاں کے لوگ اپنے پالتو جانوروں کو سونے کی زنجیر سے باندھتے ہیں اور ان کے گلے میں بھی سونے کا پٹہ لگاتے ہیں، وک وک یعنی جاپان میں بہترین کپڑا تیار کیا جاتا ہے، جبکہ یہاں قیمتی لکڑی کی بھی بہتات ہے، غرض جاپان کے حوالے سے کافی تفصیلات اس ریکارڈ کا حصہ ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے مسلمانوں کی جاپان آمد گیارہویں صدی میں ہوچکی تھی۔ پھر پرتگال کے بحری تجارتی جہازوں کے ذریعے عرب مبلغوں نے پندرہویں صدی عیسوی میں اسلام کی تبلیغ کے سلسلے میں جاپان کا سفر کیا تھا۔
جاپان کی جدید تاریخ کے مطابق اٹھارہویں صدی عیسوی میں انڈونیشیا کے افراد جو برطانیہ اور ہالینڈ کے بحری جہازوں پر ملازمت کرتے تھے انہوں نے جاپان میں رہائش اختیار کی، جبکہ 1870ء میں حضور اکرمؐ کی حیات مبارکہ اور اسلام کی بنیادی تعلیمات پر مبنی کتاب کا جاپانی زبان میں ترجمہ کیا گیا، جس سے جاپان میں دین اسلام کو پھیلانے میں مدد ملی۔ تاہم جاپانی عوام نے اسلام کو بطور تاریخ اور عرب ثقافت کے طور پر جاننے میں دلچسپی ظاہر کی۔ مذہب کی تبدیلی بہت زیادہ نہیں دیکھی گئی،
جاپان کا پہلا شخص جو مسلمان ہوا اور حج کی سعادت حاصل کی، اس کا نام کوتارو یامائوکا تھا، جس نے 1909ء میں بھارت کے شہر ممبئی میں روسی مسلمان شہری سے متاثر ہوکر اسلام قبول کیا، جس کا اسلامی نام عمر یامائوکا رکھا گیا۔ عمر یامائوکا نے ہی 1910ء میں ٹوکیو میں مسجد کی بنیاد رکھی، جو 1938ء میں مکمل ہوئی۔ ایک اور جاپانی شہری جس نے اسلام قبول کیا، اس کا نام بنپاچیرو اریگا تھا۔ یہ بھی اٹھارہویں صدی میں تجارت کی غرض سے بھارت گیا اور وہیں مقامی مسلمانوں سے متاثر ہوکر اسلام میں داخل ہوا اور اس کا نام احمد اریگا رکھا گیا۔
بھارت میں ہی اگلا مسلمان ہونے والا جاپانی شہری بیس سالہ یامادا تائوجیرو تھا، جس نے 1892ء میں اسلام قبول کیا اوراس کا اسلامی نام عبد الخلیل رکھا گیا اور اس نے اسی سال حج کا فریضہ ادا کیا۔ چند جاپانیوں کے مسلمان ہونے کے باوجود جاپان میں اسلام اس تیزی سے متعارف نہ ہوسکا، جس کا خیال کیا جا رہا تھا۔ تاہم انیسویں صدی کے شروع میں وسطی ایشیا سے بڑی تعداد میں مسلمان شہری جاپان میں پناہ گزین ہوئے جنہیں جاپانی حکومت نے کھلے دل کے ساتھ پناہ دی اور جاپان کے مختلف شہروں میں بسنے میں ان کی مدد بھی کی۔ تقریباً ان 6 سو مسلمانوں نے جاپان میں اسلام کے فروغ کیلئے کام کیا اور بڑی تعداد میں جاپانی شہریوں نے دین اسلام میں داخل ہونا شروع کردیا۔ اسی دوران جاپان کی قدیم ترین عبادت گاہ کوبے مسجد بھی تعمیر کی گئی، جو 1938ء میں مکمل ہوئی۔
جاپان میں اسلام کے فروغ اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود کیلئے ’’جاپان مسلم لیگ‘‘ کا قیام 1930ء میں عمل میں آیا، جسے جاپانی زبان میں دائی نیہون کائی کو کیوکائی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ تنظیم پہلی آفیشل اسلامی جماعت کے طور پر وجود میں آئی۔ اس تنظیم کے قیام سے جاپانی عوام میں اسلام کو جاننے کا شوق پیدا ہوا اور اسی تنظیم کی جانب سے جاپانی زبان میں سو سے زائد کتابیں اور رسالے شائع کیے گئے، جس میں اسلام کی بنیادی تعلیمات کو جاپانی زبان میں بیان کیا گیا تھا، اسی تنظیم کی جانب سے دنیا کے کئی اہم اسلامی اسکالرز اور عالم اسلام کی سیاسی قیادت کو جاپان کے دورے پر بلوایا گیا اور جاپان کو اسلام کے قریب کرنے کیلئے اہم اقدامات کیے گئے۔
جاپان کی اہم شخصیت شومے اوکاوا جنہیں دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکی افواج نے جنگی جرائم کا اولین ملزم قرار دیا تھا، انہوں نے نہ صرف اسلام قبول کیا، بلکہ جیل میں ہی قرآن مجید کا جاپانی زبان میں ترجمہ بھی کیا۔ شومے اوکاوا کو خواب میں حضور اکرمؐ کی زیارت کی بھی سعادت حاصل ہوئی۔ بعد میں انہیں معافی دے دی گئی۔ انہوں نے خاموشی سے اسلام کی تبلیغ جاری رکھی اور 1955ء میں ان کا انتقال ہوا۔