اسلام آباد:سابق جج شوکت عزیز صدیقی دوران سماعت روسٹرم پر آ کر مشتعل ہو گئے اور کہا میں توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتا تو کیا ہوتا، اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار میری گردن کے پیچھے تھے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سابق جج شوکت عزیز صدیقی کیس کی سماعت ہوئی ، سماعت میں جسٹس مظہر عالم خیل نے استفسارکیا صرف شوکت عزیز صدیقی کو ہی کیوں ٹارگٹ کیاگیا؟ جس پر وکیل حامد خان نے بتایا شوکت صدیقی ایک ادارے کوتنگ کرتےتھےاس لیے ٹارگٹ کیا گیا۔
جسٹس مظہر عالم نے ریمارکس میں کہا ایک ادارے کو تنگ کرنے پر جوڈیشل کونسل کیوں کارروائی کرے گی، وکیل کا کہنا تھا کہ فیض آباد دھرناکیس میں ریمارکس پربھی جوڈیشل کونسل نےشوکازدیا۔
جسٹس عمرعطابندیال نے کہا ریمارکس دیکھ کراندازہ ہوگا جج آزادتھےیا پہلے سے ذہن بنایا ہوا تھا، جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیئے کہ فیض آباد دھرنا کیس بار میں تقریر سے پہلے ہوا تھا، رطرفی تقریر پر ہوئی دونوں کا آپس میں تعلق نہیں بنتا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا شوکت عزیز صدیقی نے کیا ریمارکس دیے تھے؟ کیا انھوں نے خود سےمنصوب ریمارکس کی تردید کی تھی، جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ تقریر ،ریمارکس تسلیم شدہ ہیں جن پرکونسل نےفیصلہ کیا۔
جسٹس طارق مسعود نے مزید کہا جب ملاقات کی کوشش ہوئی تو توہین عدالت نوٹس کیوں نہ کیا، جج پر اثر انداز ہونےکی کوشش پرتوہین عدالت نوٹس بنتاتھا۔
جسٹس طارق مسعود کا کہنا تھا کہ آپ نے کسی چیف جسٹس کو اطلاع بھی نہیں دی، یہ بتا دیں کیا یہ آپ کا مس کنڈکٹ نہیں تھا، جس پر وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ نوٹس نہ کرنے پربرطرف نہیں کیاجاسکتا، اس وقت چیف جسٹس کو خط لکھا تھا، اس پر سپریم کورٹ کو توہین عدالت نوٹس دینا چاہیے تھا۔
جسٹس سردار طارق نے استفسار کیا خط لکھنے کیلئے ایک ماہ تک انتظار کیوں کیا؟ سابق جج شوکت عزیز صدیقی روسٹرم پر آ کر مشتعل ہو گئے اور کہا میں توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتا تو کیا ہوتا، اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار میری گردن کے پیچھے تھے۔
شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ اس کے بعد آپ مجھے پھانسی دیں گے تو دے دیں، 23سال بطوروکیل، 7 سال بطور جج،3سال بطورسائل ہوگئے، میں اس نظام کو بہت اچھے سے سمجھتا ہوں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے شوکت عزیز صدیقی پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا حامد خان صاحب آپ نے دانستہ خاموشی اختیارکی ہے، جب موکل نے اس عدالت کی تضحیک کی تو آپ خاموش رہے، جس طرح موکل پھٹ پڑے یہ ہر لحاظ سےغیر معیاری ہے ، آپ نے رہ کر شوکت عزیزکی حوصلہ افزائی کی۔
وکیل حامد خان نے عدالت سے معذرت کرتے ہوئے کہا جذبات اکثر آڑے آ جاتے ہیں، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ جذبات کی کوئی جگہ نہیں،ہمیں یہ انداز بالکل پسندنہیں آیا، آپ موکل کو اجازت دیتے رہے کہ عدالت کی تضحیک کریں۔
جسٹس مظہر نے ریمارکس میں کہا آپ موکل کو سمجھائیں کہ جب وکیل موجود ہے تو بات نہ کریں۔