پاکستان کی عسکری قیادت نے 1947ء سے 1971ء تک مشرقی پاکستان کے دفاع کے لیے کوئی مناسب اسٹریٹجی نہیں بنائی تھی۔فائل فوٹو
پاکستان کی عسکری قیادت نے 1947ء سے 1971ء تک مشرقی پاکستان کے دفاع کے لیے کوئی مناسب اسٹریٹجی نہیں بنائی تھی۔فائل فوٹو

پاکستان توڑنے میں 6 شخصیات کا اہم کردار تھا۔میجرعارف

اسلا م آباد (رپورٹ؛نجم الحسن عارف) سقوط مشرقی پاکستان میں مجیب کے چھ نکات کے علاوہ شیخ مجیب الرحمن سمیت6 شخصیات کا اہم کردار تھا، ان میں جنرل یحییٰ خان اور بھٹو فرنٹ پر نظر آرہے تھے،جبکہ جنرل عبدالحمید، جنرل گل حسن اور ایئر چیف رحیم خان کا پس پردہ کردار تھا، یہ تینوں اعلیٰ فوجی افسران اپنے ہی آرمی چیف کے خلاف سرگرم عمل تھے تاکہ اپنے لیے زیادہ بڑی پوزیشن پا سکیں۔ امیر عبداللہ خان نیازی مشرقی پاکستان میں فوجی کمان کو سنبھالنے اور درپیش چیلنج کو سمجھنے یا اس سے نمٹنے کی اہلیت نہ رکھتے تھے۔ پاکستان کی عسکری قیادت نے 1947ء سے 1971ء تک مشرقی پاکستان کے دفاع کے لیے کوئی مناسب اسٹریٹجی نہیں بنائی تھی۔

میجر(ر) عارف حمید نے کہا مشرقی پاکستان میں ہماری فوج جنرل اے کے نیازی کی کمان میں موجود تھی، بلاشبہ وہ فیلڈ آفیسر تھے مگر ان کی صلاحیت اور اہلیت ایسی نہ تھی کہ ایک ہزار میل کے فاصلے پر فوج کی تنہا کمان کر سکتے۔ جنرل نیازی ٹیکٹس کا ماہر ضرور تھا مگر اسٹریٹجی اس کا شعبہ نہیں تھا۔ بہادری کے حوالے سے ایسے فیلڈ کمانڈر کے لیے ضروری تھا کہ وہ دماغی طور پر بھی دلیر اور تیز ہوتا، اس کے فیصلے پوری مسلح افواج پر اثرانداز ہونا تھے۔ ایک اور چیز جو ہمارے ملک کے ٹوٹنے کا باعث بنی وہ شیخ مجیب کے چھ نکات کے علاوہ دو تکونیں تھیں۔ ایک تکون میں یحییٰ، مجیب اور بھٹو شامل تھے جبکہ دوسری تکون کے تین کرداروں میں جنرل عبدالحمید، جنرل گل حسن اور پاک فضائیہ کے سربراہ رحیم خان شامل تھے۔ یہ کچھ لوگ تھے جو اقتدار کی ہوس پال کر ملک کو توڑنے کا باعث بنے۔

پہلی ٹرائیکا کے ارکان یحییٰ، مجیب اور بھٹو بنیادی طور پر دو اہم ترین عہدوں کے لیے باہم لڑتے لڑتے ہر حد سے گزرنے کو تیار تھے، حتیٰ کہ انہیں ملک کے ٹوٹ جانے کی پروا بھی نہ تھی۔ دو عہدے صدر اور وزیراعظم کے تھے۔ یحییٰ صدر بننا چاہتے تھے، مجیب وزیراعظم بننے کے آرزومند تھے، اسی طرح بھٹو کی نظریں بھی وزارت عظمیٰ پر تھیں۔ میں سمجھتا ہوں بھٹو سب سے زیادہ ملک توڑنے کا سبب بنے کہ ان کے پاس قومی اسمبلی کی صرف 82 نشستیں تھیں اور وہ وزارت عظمیٰ پر فائز ہونے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ ایک اور ٹرائیکا جو پس پردہ رہ کر اسی ہوس اختیار و اقتدار کی آگ میں ملک کو خاکستر کر دینے کو تیار تھی۔ وہ جنرل عبدالحمید، جنرل گل حسن اور ایئر چیف رحیم خان پر تھی۔ جنرل عبدالحمید فوج کے چیف آف اسٹاف تھے، بہت ذہین اور پروفیشنل تھے مگر جب انہیں آرمی چیف نہ بنایا گیا تو انہوں نے سپر سیڈ ہونے پر بھی استعفی نہ دیا۔ ان کا یہ خیال تھا کہ یحییٰ خان عیش و نشاط کا دلدادہ ہے۔ اس کے ان رجحانات کی وجہ سے ان کے لیے امکان ہے کہ آنے والے دنوں میں گنجائش پیدا ہو جائے۔ اس لیے وہ اپنے اس ہدف کے لیے یحییٰ کے گرنے کے انتظار میں تھے۔ وہ چاہتے تھے یحییٰ خان ہٹ جائے اور وہ مارشل لاء لگا کر صدر بن جائیں۔

ایئر مارشل رحیم اور گل حسن، بھٹو کے حامی تھے۔ جنرل گل حسن اور ایئر چیف، بھٹو کے ساتھ اپنے دورہ چین کے دوران مک مکا کر چکے تھے اور وہ دونوں بھٹو کو اپنے تعاون کی اور بھٹو انہیں یقین دہانیاں کرا چکے تھے۔ ان تینوں کے درمیان معاملات اس وقت طے پائے جب یحییٰ نے بھٹو کو ڈپٹی وزیراعظم اور وزیر خارجہ نامزد کر کے چین کے دورے پر بھیجا اور مذکورہ دونوں افراد اس کے ساتھ گئے۔ دورہ چین کا مقصد بھارت کے حملے کی صورت میں چین کی مدد اور کردار پر بات کرنا تھی مگر یہ لوگ اقتدار کی جنگ کے لیے تیاری کرتے رہے۔ اس ناطے بھی بھٹو ملک توڑنے والا سب سے بڑا ذمہ دار کردار تھا کہ ایک طرف اس کے پاس صرف 82 نشستیں تھیں مگر وزارت عظمیٰ سے کم پر وہ راضی نہ تھے، مزید یہ وہ فوج کے اندر بھی حامیوں کا گروپ بنارہے تھے، بھٹو کے مقابلے میں مجیب الرحمان تھے، اس کے پاس قومی اسمبلی میں اکثریت تھی مگر اس پراعتبار نہیں کیا جارہا تھا۔

دوسری اہم بات یہ تھی کہ جی ایچ کیو میں بیٹھی عسکری قیادت اور کمانڈر ایسٹرن کمانڈ کے درمیان رابطے کی کمی اور سوچ کا انداز مختلف تھا۔ جی ایچ کیو سمجھتا تھا کہ ہم مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے کریں گے۔ مشرقی پاکستان کا جغرافیہ اور موسم سب مختلف تھا۔ ہمارے پاس اس خطے میں رہتے ہوئے لڑائی کرنے کے لیے جو تیاری اور اسلحہ ضروری تھا وہ موجود نہ تھا۔

مشرقی پاکستان میں دریاؤں کی بہتات کے باعث ایک ریور فورس ہونی چاہیے تھی جو مشرقی پاکستان کے مخصوص زمینی حالات میں دفاعی ضرورتوں کو پورا کر سکتی۔ پھر ایک مرتبہ رات میں جنرل نیازی سے مکالمہ بھی ہوا، وہ اس وقت سرشاری کے عالم میں گفتگو کررہے تھے اوراپنی کامیابیوں کے قصے بیان کررہے تھے۔ میں نے کہا کہ اجازت ہو تو کچھ عرض کروں۔ کہنے لگے تم بولو گے تو برا ہی بولو گے۔میں نے کہا نہیں بولتا۔ پھر کہا کہو، جو کہنا چاہتے ہو… میں نے کہا موسم برسات مشرقی پاکستان میں جنگ کے لیے موزوں نہیں ہے۔ بھارت کا حملہ ہوا تو نومبر دسمبر میں ہو گا۔ یہ سن کر کہنے لگے، بری ہی بات کی ناں… جنرل نیازی بہادری میں بھی کوئی غیر معمولی چیز نہ تھے البتہ بہادری کے بول اچھے بول لیتے تھے۔ ان کا عین جنگ کے دنوں میں ڈھاکہ کے انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل میں رہائش کر لینا ہرگز قابل ستائش نہ تھا۔ وہ ایک طرح سے عالمی پناہ میں چلے گئے تھے۔ انہیں برما جانے سے بھی ایسے ہی ماحول میں جنرل فرمان علی نے روکا تھا۔

بدقسمتی سے ہمارے جی ایچ کیو نے بھی قیام پاکستان سے لے کر 71ء کی جنگ تک مشرقی پاکستان کے دفاع کی کوئی اسٹریٹجی نہ بنائی ۔ مشرقی پاکستان کے مخصوص جغرافیہ کے پیش نظر کوئی ریور فورس نہ بنائی گئی۔ حالانکہ قائداعظم کی اردو زبان کو قومی زبان قرار دینے والی تقریر کے ساتھ ہی وہاں سے منفی کردار متحرک ہو گئے تھے۔ ہندو اساتذہ بڑی چالاکی کے ساتھ نفرت کا زہر گھول رہے تھے مگر ہماری سیاسی و عسکری قیادت کے علاوہ بیوروکریسی میں سے کسی نے بھی ممکنہ خطرے کا ادراک نہ کیا،بعدازاں ملک توڑنے میں ملوث کرداروں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔