مغربی ممالک میں چینی ساختہ روبوٹ بیویوں کی مقبولیت عروج پر پہنچتی جا رہی ہے۔ چینی روبوٹ ساز کمپنیوں کا کہنا ہے کہ انہیں یورپ، آسٹریلیا اورامریکا سے مشینی جیون ساتھی کے لاکھوں آرڈز موصول ہوچکے ہیں۔ جبکہ عالمی مارکیٹ میں ان کی اسمبل شدہ روبوٹ بیوی کے نرخ بھی بڑ ھ چکے ہیں۔ ادھر امریکی افراد میں روبوٹ بیویاں رکھنے کا رواج تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔
امریکی و یورپی سوسائٹی میں وہ افراد بالخصوص روبوٹ بیویاں خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ جن کی بیویاں مر چکی ہیں یا وہ ان سے طلاق لے چکی ہیں۔ لیکن روبوٹ بیوی کے خواہشمندوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو سوسائٹی سے کٹ کر زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں اور نہیں پسند کرتے کہ کوئی ان کے گھرآئے اور رشتے داری نبھائے۔
یورپی میڈیا کا کہنا ہے کہ دو برس سے دنیا بھر میں پھیلے کورونا کی وجہ سے بھی آئیسولیشن اور احتیاط کی پابندیوں نے انسانوں کو تنہا کر دیا ہے۔ ایسے میں تنہائی کا شکار افراد کیلئے روبوٹ بیوی بہترین مونس و ہمدم ثابت ہوئی ہے جو کبھی بیمار یا کورونا کا شکار نہیں ہوسکتی۔ کوئنس لینڈ، آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے جیف گیلاگر بھی ان ہزاروں افراد میں ایک ہیں جنہوں نے روبوٹ بیوی کا انتخاب کیا ہے۔
جیف نے ایک چینی کمپنی سے 6,500 ڈالر میں ایک روبوٹ بیوی خرید لی۔ ٹیکساس سے تعلق رکھنے والے امریکی شہری اسٹیون جابز کا استدلال ہے کہ روبوٹ بیوی، انسانی بیگم کا بہترین متبادل ہے۔ یہ شور شرابا یا لڑائی جھگڑا نہیں کرتی۔ فرمائش بھی نہیں کرتی۔ اس کو کھانے کی حاجت نہیں اور نہ ہی دیکھ ریکھ کی کوئی ضرورت پڑتی ہے۔ میں جب اس کو ساتھ لے جانا چاہوں تو بس اس کو اٹھا کر گاڑی میں ڈال لیتا ہوں۔ اس کا کوئی تفریحی ٹکٹ نہیں لینا پڑتا اور نہ ہی یہ بیمار پڑتی ہے اور اس کے طبی و ذاتی اخراجات صفر ہیں۔ جبکہ روبوٹ بیوی رقص اور گانے میں ماہر ہونے کے علاوہ حالات حاضرہ پر بھی گفتگو کر سکتی ہے۔ میں بیحد خوش ہوں کہ مجھے کم سے کم اخراجات والی بیوی ملی ہے۔ روبوٹ بیوی بہت اچھی ہوتی ہے اور اس کے بے وفا ہونے یا طلاق لینے کا بھی کوئی خدشہ نہیں۔ یہ بیوی ہمیشہ آپ کی ہے، جب تک کہ آپ اس سے خود اُکتا نہ جائیں۔ چین کی کئی کمپنیاں اس وقت روبوٹ بیویاں اسمبل کررہی ہیں اوریہ عالمی خریداروں کی فرمائشیں بھی پورا کرنے کی کوشش کرتی ہیں، جن میں رنگت، قد، چہرے کے نقش و نگاراور بالوں کا ڈیزائن خریداروں کی خواہش کے مطابق سیٹ کیا جاتا ہے۔
آسٹریلوی شہر کوئنس لینڈ کے باشندے جیف گیلاگر کی زندگی اس وقت بدلی جب اس نے آرٹی فیشل انٹیلی جنس کی حامل روبوٹ بیویوںکے بارے میں ایک مضمون پڑھا۔ جیف گیلاگر نے بتایا کہ وہ اپنی والدہ کی موت کے بعددس برس سے اپنے پالتوکتے کے ساتھ تنہائی کی زندگی بسر کررہا تھا۔ جب اس نے چینی کمپنیوں کی تیار مصنوعی ذہانت والی لیڈی روبوٹ کے بارے میں ایک مضمون کا مطالعہ کیا تو اس کی زندگی اور سوچ بدل گئی۔ اس نے ایک ذہین اور خوبصورت روبوٹک بیوی کا آرڈر دے دیا۔ جو جلد ہی اسمبل اور چیک کرکے کر اس کے گھر بھیج دی گئی۔
جیف کا کہنا ہے کہ یہ مسکرا سکتی ہے۔ باتیں کرسکتی ہے۔ دل جوئی کی گفتگو کے ساتھ عالمی و مقامی خبریں سنا سکتی ہے۔ واضح رہے کہ چین روبوٹ بیوی ساز انڈسٹری میں پوری دنیا میں شہرت رکھتا ہے۔ پہلی بار چین میں ڈجیٹل یا روبوٹک بیوی 2017ء میں انجینئر زنگ گیاگی نے تیار کی تھی جو خواتین کی صفات سے مزین تھی۔ چینی روبوٹ ساز کمپنیوں کا کہنا ہے کہ بالخصوص روبوٹ بیوی کی تیاری سماجی اہمیت کی حامل ہے۔ اس روبوٹ کی تیاری سے خواتین کے بحران اور لڑکیوں کی قلت پرقابو پانے میں مدد ملے گی۔ چینی انجینیئر کی روبوٹ بیوی کا نام ینگ ینگ رکھا گیا تھا۔