محکمہ موسمیات کی وارننگ نظرانداز- 5روز تک برفباری کے باوجود راستے تاخیر سے بند کیے گئے- فائل فوٹو
محکمہ موسمیات کی وارننگ نظرانداز- 5روز تک برفباری کے باوجود راستے تاخیر سے بند کیے گئے- فائل فوٹو

سانحہ مری میں انتظامیہ کی غفلت ثابت ہوگئی

مری: سانحہ مری میں انتظامیہ کی غفلت ثابت ہوگئی، تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں پول کھول دیا اور واقعے کا ذمہ دار انتظامیہ کو قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق برف ہٹانے والی 20 گاڑیاں ایک جگہ کھڑی رہنے کا انکشاف ہوا ہے جبکہ عملہ بھی غائب تھا۔

محکمہ موسمیات کی وارننگ کو بھی نظر انداز کیا گیا، کمیٹی نے مری میں کار پارکنگ نہ رکھنے والے ہوٹلز، شاپنگ مال اوراپارٹمنٹس کوبند کرنے اور تجاوزات ختم کرنے کیلیے گرینڈ آپریشن کی تجویز دی گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق سانحہ مری کے حوالے سے قائم کی جانے والی 5 رکنی انکوائری کمیٹی نے افسران اور زندہ بچ جانے والے سیاحوں کے بیانات کو قلم بند کر کے رپورٹ تیار کی جو آج وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو پیش کی جائے گی۔

ذرائع کے مطابق انکوائری کمیٹی نے پول کھول دیا ہے اور سانحہ مری کا ذمہ دار انتظامیہ کو قرار دیا اور لکھا کہ انتظامی غفلت و لاپرواہی کی وجہ سے واقعے پیش آیا۔ ذرائع کے مطابق انتظامیہ نے محکمہ موسمیات کی وارننگ کو مسلسل نظر انداز کیا اور 5 دن برفباری کے بعد راستوں کو دو روز تاخیر سے بند کیا گیا جبکہ برف ہٹانے والی مشینری ایک جگہ کھڑی رہی اورعملہ غائب تھا۔

انکوائری کمیٹی نے 7 روز میں انتظامی محکموں کے 30 سے زائد افسران کے بیانات قلم بند کیے اور ان کی جانب سے اُٹھائے گئے اقدامات کا جائزہ بھی لیا۔ کمیٹی نے زندہ بچ جانے والے سیاحوں کے بیانات بھی ریکارڈ کیے تھے۔سیاحوں نے 7 اور 8جنوری کی رات کو خوفناک تجربہ قرار دیتے ہوئے انتظامیہ کی نااہلی، غفلت اور بدانتظامی کے شکایتوں کے انبار لگادیے۔ کمیٹی نے ان بیانات کی روشنی میں مفصل رپورٹ تیار کرکے ڈرافٹ مکمل کرلیا ہے۔

تحقیقاتی کمیٹی نے گذشتہ روز مری کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا، ہوٹلز اور ان میں کار پارکنگ کے انتظامات دیکھے،تحقیقاتی ٹیم آج بھی متاثرین کے بیانات ریکارڈ کریگی۔تحقیقاتی کمیٹی نے مری کی ملحق شاہراہوں پر تجاوزات و تعمیرات کو ٹریفک کی روانی میں بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہوئے غیر قانونی تعمیرات اور تجاوزات کے خلاف بڑے آپریشن کی سفارش کردی ہے۔

تحقیقاتی کمیٹی نے مری میں کارپارکنگ نہ رکھنے والی عمارتیں اور غیرقانونی تعمیرات ہوٹلز، شاپنگ مالز، اپارٹمنٹس کو سیل کر نے کی بھی سفارش کردی ہے۔ کمیٹی نے سفارش کی کہ مری میں دوبارہ سانحے سے بچنا ہے تو غیرقانونی تعمیرات گرانی ہوں گی اور تجاوزات ختم کرنے کیلئے گرینڈ آپریشن کرنا ہوگا۔ انکوائری رپورٹ کے مطابق طوفان کے وقت برف ہٹانے والی 20 گاڑیاں ایک ہی مقام پرکھڑی رہیں جبکہ گاڑیوں کو چلانے کیلئے ڈرائیوز اور عملہ بھی ڈیوٹی پرموجود نہیں تھا۔ذرائع کے مطابق محکمہ جنگلات کے اہلکار کمیٹی کو تسلی بخش جواب دینے میں ناکام رہے، کمیٹی نے عملے کی تفصیلات اور ان کی ذمہ داریوں کی فہرست بھی طلب کررکھی ہیں۔

علاوہ ازیں ذرائع کا کہنا ہے کہ میٹرولوجی ڈیپارٹمنٹ نے طوفان سے متعلق کوئی الرٹ جاری نہیں کیا تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ محکمہ ہائی وے کنٹرول کو مشینری بھجوانے کے لیے وائرلیس سے متعدد پیغامات بھیجے گئے تھے لیکن متعدد پیغامات کے باوجود مشینری بروقت نہ بھیجی گئی، محکمہ موسمیات کی وارننگ کو بھی مسلسل نظر انداز کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق باڑیاں روڈ پر صفائی کرنے والی گاڑی رک گئی تھی، آپریٹر نے کہا کہ برف ہٹانے والی گاڑی خراب ہے، برف ہٹانے والی گاڑی موقع پر پہنچی تو پتا چلا کہ ڈیزل ختم تھا، لوئر ٹوپہ، ٹھنڈا جنگل، کلڈانہ، چٹہ موڑ پر درخت اور بجلی کی تاریں ٹوٹ کر گر یں، محکمہ جنگلات کے ملازمین نے اطلاع ملنے کے بعد متعلقہ نمبرز بند کر لیے، بجلی کی تاریں گرنے سے مری کے انسپکٹر کی گاڑی جل کر خاکستر ہوگئی تھی۔این ایچ اے اور موٹر وے پولیس کی جانب سے بھی عدم تعاون کیا گیا، ریسکیو ٹیموں نے دن کے وقت امدادی سرگرمیاں شروع کیں، متوقع برف باری سے نمٹنے کے لیے انتظامیہ نے نومبر، دسمبر میں 4 اجلاس کیے، اس سلسلے میں 2 واٹس ایپ گروپ بھی تشکیل دیے گئے تھے جو مری اسنو فال اور مری اسپیشل کے نام سے تھے۔

انتظامات سے متعلق ڈی سی نے نومبر، دسمبر، جنوری میں 3 بار مری کے دورے کیے، سٹی پولیس آفیسر نے دسمبر اور جنوری میں مری کے 2 دورے کیے۔ واضح رہے کہ مری کے علاقے کلڈنہ اور جھیکا گلی کے قریب 9 جنوری کو شدید برفباری میں بے یارو مددگار گاڑیوں میں محصور ہوکر رات گزارنے والے بچوں اور خواتین سمیت 22 شہری انتقال کرگئے تھے، ان میں ایک ہی خاندان کے 8 افراد بھی شامل تھے۔ اس افسوسناک واقعے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا، جس کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے اگلے ہی روز ایڈیشنل چیف سیکریٹری پنجاب ظفر نصراللہ کی سربراہی میں 5 رکنی انکوائری کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اس سے قبل 10 جنوری کو وزیراعظم عمران خان نے انکوائری کمیٹی کو جلد حقائق سامنے لانے کا حکم دیا تھا۔ وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ دور میں بڑھتی سیاحت کیلیے کئی دہائیاں پرانا انفرااسٹرکچر بڑا مسئلہ ہے۔