پشاورسمیت ملک بھر میں نسوارکی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کے ستائے سستا نشہ کرنے والے نسوارخور بھی پریشانی میں مبتلا ہو گئے۔ دس روپے والی نسوارکی پڑیا کی قیمت بیس سے پچیس روپے تک جا پہنچی۔ باڑہ کی نسوار تیس سے پینتیس روپے میں فروخت کی جا رہی ہے۔
نئے سال کے آغازاور منی بجٹ کے تحفے کے بعد خیبرپختون میں جہاں دیگر اشیائے خورونوش مہنگی ہوئی ہیں۔ وہیں نسوارکی قیمت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ جس نے نسوار خوروں کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔ نسوارکے کاروبار سے وابستہ دکانداروں کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے نت نئے ٹیکسوں اور مسلط کی گئی مہنگائی کے باعث نسوارکی قیمتیں بڑھیں۔
مارکیٹ ذرائع کے مطابق 10 روپے والی نسوارکی پڑیا 20 سے 25 روپے ہو گئی ہے۔ جبکہ باڑہ کی فیکٹریوں میں تیار ہونے والی اسپیشل نسوارکی قیمت 30 سے 35 روپے تک جا پہنچی ہے۔ نسواراستعمال کرنے والوں کا کہنا ہے کہ دس پندرہ روپے والی نسوارکا اثر جلد ختم ہو جاتا ہے۔ اس لیے زیادہ ترلوگ باڑہ کی مشہور نسوار استعمال کرتے ہیں تاہم مہنگی ہونے پر اب وہ دن میں 3 کے بجائے صرف 1 پیکٹ (پڑیا) پر گزارا کر رہے ہیں۔
دکانداروں کے مطابق مہنگی ہونے پر نسوار کی خریداری بھی کم ہوگئی ہے۔ جبکہ خیبرپختون کی نسبت پنجاب میں نسوار کی قیمت زیادہ ہے۔ جس کی وجہ سے پنجاب میں بھی اس کی خریداری کم ہوگئی ہے۔ پنجاب کے عوام جو پہلے نسوار استعمال کرتے تھے۔ اب صرف پان پر گزارا کر رہے ہیں۔ اسی وجہ سے دکانداروں کے پاس آرڈر کم آرہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق پہلے کورونا وبا کی وجہ سے خیبرپختون میں نسوار کی فیکٹریوں میں کام شدید متاثر ہوا۔ اب منی بجٹ کے بعد نسوار کی قیمتوں میں اضافے سے رہا سہا کام بھی نہیں چل رہا۔ جس کی وجہ سے نسوار کی فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے بھی بیروزگار ہونے کا خدشہ ہے۔
نسوار کے تاجروں کے مطابق خلیجی ممالک میں نسوار ساتھ لے جانے پر پابندی عائد ہونے سے بھی نسوار کا کاروبار متاثر ہوا ہے۔ پہلے خلیجی ممالک میں مزدوری کرنے والے افراد زیادہ مقدار میں نسوار ساتھ لے جاتے تھے۔ جبکہ بعض اپنے دوستوں کیلیے بھی نسوار لے کر جاتے۔ تاہم خلیجی ممالک میں نسوار پر پابندی کے باعث کاروبار مزید متاثر ہو گیا۔ واضح رہے کہ خیبرپختون میں نسوار تیار کر نے والی فیکٹریاں تین سو کے قریب ہیں۔ جن میں مختلف اقسام کی نسوار تیار کی جاتی ہیں۔
مارکیٹ سے ملنے والی معلومات کے مطابق خیبرپختونخوا میں سب سے زیادہ کالی نسوار پسند کی جاتی ہے۔ سبز نسوار کا استعمال کم ہے۔ سبز نسوار تاثیر میں کالی نسوار سے کہیں زیادہ سخت ہے۔ اسی وجہ سے کم فروخت ہوتی ہے۔ جبکہ اس کی قیمت بھی کم ہے۔ تاہم ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ میں تیار ہونے والی نسوار کی مانگ زیادہ ہے۔
پشاورکے سب سے بڑے حاجی کیمپ بس اڈے میں نسوار فروخت کرنے والے ایک دکاندار مشال خان نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ پہلے وہ روزانہ 4 سے 5 ہزار روپے کی نسوارفروخت کر لیتا تھا۔ لیکن اب مہنگائی کی وجہ سے نسوار کے گاہک کم ہو گئے ہیں۔ پنجاب جانے والی گاڑیوں میں بھی مشکل سے دو یا تین گاہک ملتے ہیں۔ مہنگائی کی وجہ سے نسوارکے کاروبار سے وابستہ افراد بھی متاثر ہوئے ہیں۔