متعصب اور نسل پرست عالمی سوشل ایپلی کیشن فیس بک اپنی حریف لیکن دنیا بھر میں مقبول ایپلی کیشن ٹک ٹاک سے نہ صرف خائف ہے۔ بلکہ ٹک ٹاک کیخلاف عالمی سازشیں بھی شروع کر دی ہیں۔ فیس بک کی جانب سے مختلف ممالک میں سماجی گروپس اور تنظیموں کو tiktok کو بدنام کرنے کیلئے لاکھوں ڈالرز کی رشوتیں دی جارہی ہیں۔ معروف جریدے واشنگٹن پوسٹ کے مطابق فیس بک کی ملکیت کمپنی ’میٹا‘ عالمی اخبارات میں مقبول چینی ایپلی کیشن ٹاک ٹاک کے خلاف نفرت پھیلانے کیلئے مضامین اور خطوط شائع کروانے کی مہم میں شامل و شریک ہے، لیکن پس پردہ کام کر رہی ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کا دعویٰ ہے کہ فیس بک نے tiktok کیخلاف ’’ٹارگے ٹیڈ وکٹری‘‘ نامی ایک فرم کی خدمات حاصل کی تھیں اور اسے بھاری معاوضے پر اس گھنائونی مہم پر مامور کیا۔ یاد رہے کہ افواہیں، جھوٹی خبریں اور ڈس انفارمیشن پھیلانے کیلئے ٹارگے ٹیڈوکٹری کا ایک مقام ہے۔ یہ کمپنی ماضی میں بھی کئی ایک ریپبلکن امیدواروں کا امیج بہتر بنانے اور مخالفین کا تاثر دھندلانے کیلئے کام کرچکی ہے۔ اب بھی کئی ایک امریکی میڈیا پنڈت کہتے ہیں کہ ٹارگے ٹیڈ وکٹری کو حزب مخالف ریپبلکن پارٹی کی مہمات سے کروڑوں ڈالرز فراہم کئے جاتے ہیں۔ لیکن یہ پہلا موقع ہے جب یہ افواہیں پھیلانے والی تشہیری کمپنی نے فیس بک کی جانب سے اپنی مد مقابل ٹک ٹاک کو بدنام کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ اگرچہ فیس بک کے منتظمین یا مالک مارک زخر برگ نے اپنی مشیر کمپنی ٹرگے ٹیڈ وکٹری کو دیئے جانیوالے ٹارگٹ کی حقیقی قیمت کی بابت کچھ نہیں بتایا۔ لیکن امریکی تجزیہ نگاروں کاکہنا ہے کہ یہ اسائنمنٹ لاکھوں ڈالرز کا ہوگا۔ یہ بھی علم ہوا ہے کہ فیس بک لائیو شارٹ ویڈیو اسٹریمنگ کیلئے tiktok سے اس قدر خوفزدہ ہے کہ ایک جانب اس نے reelکے نام سے شارٹ ویڈیوز کا نیا آپشن جاری کیا ہے تو دوسری طرف شارٹ ویڈیوز بنانے اور اپلوڈ کرنے والے صارفین کیلئے بھاری انعامات کی پیشکش بھی کی ہے۔ جبکہ درون خانہ فیس بک پلیٹ فارم منتظمین چینی حریف کمپنی کو بدنام کرنے کیلئے دائیں بازو کی ایک کنسلٹنٹ فرم کو لاکھوں ڈالرز کی ادائیگیاں بھی کررہے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ نے حاصل کردہ ای میلز پر انکشاف کیا ہے کہ فیس بک کی جانب سے ٹارگے ٹیڈوکٹری کو معاہدہ کے تحت کمپنی کے ملازمین کوہدایات دیں کہ وہ یہ ڈس انفارمیشن پھیلائیں کہ فیس بک کو امریکی حکام کی جانب سے غلط نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ حالانکہ ٹک ٹاک امریکا میں ایک غیر ملکی ملکیت ایپلی کیشن کے بطور حقیقی خطرہ ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت بھی دنیا بھر میں tiktok سب سے زیادہ مقبول ایپلی کیشن ہے اور نوجوانوں کی جانب سے استعمال کی جانے والی ڈیٹا شیئرنگ میں سرفہرست ہے۔ گزشتہ برس ٹک ٹاک نے فیس بک حتیٰ کہ گوگل (Google) کو دنیا کی سب سے زیادہ بار دیکھی جانے والی ’ویب سائٹ‘ کے طور پر کہیں پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ ادھر امریکی میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ’ٹارگے ٹیڈ وکٹری‘ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر زیک موفٹ ایک دہائی قبل امریکی صدارتی اُمیدوار مٹ رومنی کی صدارتی الیکشن مہم کے ڈیجیٹل ڈائریکٹر کے طور پر کام کر رہے تھے۔ لیکن واشنگٹن پوسٹ کی طرف منکشف کی جانے والی اہم ای میلز سے یقین کیا جاسکتا ہے کہ یہ فرم اب فیس بک کی آلہ کار بنی ہوئی ہے۔
میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ٹارگے ٹیڈ وکٹری کے ایک عہدیدار نے دوسرے معاون آپریٹر کو ای میل میں لکھا کہ یہ ہمارے لئے بونس پوائنٹ ہو گا اگر ہم اس خبری دعویٰ کو ایک وسیع تر منظر نامہ میں کچھ اس طرح فٹ کر دیں کہ موجودہ بلز یا تجاویز پر اسٹیٹ اٹارنی جنرل یا کانگریس کے اراکین کی توجہ بالکل بھی نہیں۔ جب ایک اور سینئر عہدیدار نے پوچھا کہ کیا آ پکی مارکیٹوں میں ٹک ٹاک کے خراب رجحانات یا اقدامات کی کوئی مثال ہے؟ تو اس کا ہنستے ہوئے کہنا تھا، جی ہاں ہمارا خواب ایسے پورا ہو سکتا ہے کہ ہم والدین کو بتا سکیں کہ ڈانس سے لے کر حقیقی خطرے تک ٹک ٹاک کم سن بچوں کیلئے انتہائی خطرناک سوشل میڈیا پلیٹ فارم یا اسپیس بن چکی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کا کہنا تھا کہ کچھ عرصہ قبل ٹارگے ٹیڈوکٹری امریکا سمیت دنیا بھر یہ افواہ پھیلانے میں کامیاب ہو گئی کہ ٹک ٹاک پر’ٹیچر کو تھپڑ مارو، چیلنج‘ سامنے آیا ہے، جس سے تعلیمی اداروں، پولیس اور مقامی میڈیا کی جانب سے ملک بھر میں خطرے کی گھنٹی بجا دی گئی۔ لیکن جب ہوم لینڈ سیکورٹی نے اس کی تحقیق کی تو علم ہوا کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ عالمی جریدے انسائیڈر نے اپنی رپورٹ میں کھل کر لکھا کہ ’ٹیچر کو تھپڑ مارو، چیلنج کبھی موجود ہی نہیں تھا اور فیس بک پر اس قسم کی افواہیں پھیلنا شروع ہو گئی تھیں کیونکہ فیس بک ٹک ٹاک کو بہر قیمت بدنام کرنا چاہتی تھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ برطانوی جریدے کو بھیجی جانے والی اپنی ای میل میں ٹارگے ٹیڈ وکٹری کے چیف ایگزیکٹو نے اپنی کمپنی کا دفاع کیا اور کہا کہ کارپوریٹ پریکٹس میں ہمارے کلائنٹس کی جانب سے دو طرفہ ٹیموں کا انتظام کیا جاتا ہے اور ہمیں اپنے کام پر فخر ہے۔ اُدھر فیس بک/ میٹا ترجمان نے بھی tiktok کیخلاف اپنی مہم کا دفاع کیا اورکہا کہ ہمارا خیال ہے کہ ٹک ٹاک سمیت تمام پلیٹ فارمز کو اپنی بڑھتی ہوئی کامیابی کو مانیٹر کرنے کیلئے اس قسم کی جانچ پڑتال کا سامنا کرنا چاہئے۔ خیال رہے کہ ماضی میں فیس بک پر مخصوص صارفین کا ذاتی ڈیٹا امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو دینے کے ساتھ ساتھ کروڑوں صارفین کا ڈیٹا تجارتی کمپنیوں کو بیچنے کا الزام ثابت ہوچکا ہے۔ جبکہ برما، فلسطین اور افریقا میں مخصوص کمیونٹیز کیخلاف نسل پرستی کی آگ بھڑکانے میں بھی فیس بک ملوث رہی ہے۔ ہندوستان میں بھی مسلم مخالف اور نفرت انگیز پوسٹوں پر فیس بک کی جانب سے بھارتیہ جنتا پارٹی اور ہندوئوں کی حمایت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔