اسپیکر قومی اسمبلی پرویز اشرف کیخلاف 9 نیب ریفرنس پی ٹی آئی دور میں واپس ہوئے،فائل فوٹو
 اسپیکر قومی اسمبلی پرویز اشرف کیخلاف 9 نیب ریفرنس پی ٹی آئی دور میں واپس ہوئے،فائل فوٹو

سپریم کورٹ نے31 مارچ کو اسمبلی کارروائی کا ریکارڈ طلب کرلیا

اسلام آباد:اسپیکر رولنگ کے خلاف از خود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی ، عدالت نے 31 مارچ کو اسمبلی کی کارروائی کا ریکارڈ طلب کرلیا،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کا فوکس صرف ڈپٹی سپیکر کی رولنگ پر ہے، عدالت کی ترجیح ہے کہ صرف اس نقطے پر ہی فیصلہ ہو، عدالت ریاستی اور خارجہ پالیسی کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی۔

اسپیکر رولنگ کے خلاف از خود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں لارجر بینچ نےکی ، دوران سماعت رضا ربانی نے کہا کہ  الیکشن کمیشن کا بیان آیا ہے کہ 3 ماہ میں انتخابات  نہیں ہو سکتے ، میری کوشش ہے کہ آج دلائل مکمل ہوں اور مختصر  فیصلہ آجائے ۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم بھی جلدی فیصلہ چاہتے ہیں لیکن فریقین کا موقف سنیں گے ۔

رضا ربانی نے دلائل دیے کہ 28مارچ کوعدم اعتمادکی تحریک منظورہوئی مگرسماعت ملتوی کی گئی، ڈپٹی اسپیکرنےرولنگ پڑھی اورارکان کوآرٹیکل 5 کی خلاف ورزی کامرتکب قراردیا، ڈپٹی اسپیکرنےیہ بھی اعلان نہیں کیاکہ تفصیلی رولنگ جاری کریں گے، ڈپٹی اسپیکرنےکس بنیادپررولنگ دی کچھ نہیں بتایا، ڈپٹی اسپیکرکےسامنےعدالتی حکم تھانہ ہی سازش کی کوئی انکوائری رپورٹ، ڈپٹی اسپیکرنےتحریری رولنگ دےکراپنی زبانی رولنگ کوغیرمؤثرکردیا، ڈپٹی سپیکرکی رولنگ آئین کیخلاف ہے، جوکچھ ہوا اس کوسویلین مارشل لاہی قراردیاجاسکتاہے،سسٹم نےازخودہی اپنامتبادل تیارکرلیاجوغیرآئینی ہے،  عدالت نےدیکھناہےپارلیمانی کارروائی کوکس حدتک استثنیٰ ہے۔

  دوران سماعت  خاتون وکیل  نے فریق بنانے کی استدعا کی جسے  چیف جسٹس نے مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ  فریق بننے کی درخواستیں نہیں سن رہے ۔خاتون وکیل نے کہا کہ سارا مسئلہ جس کی وجہ سے بناہے اس کو بلایا جائے سابق امریکی سفیر اسد امجد کو بلایا جائے ، اسد امجد کے خط کی وجہ سے سارا مسئلہ شروع ہوا ، عدالت نے  ریمارکس دیے کہ آپ بیٹھ جائیں ، ہم انفرادی درخواستیں نہیں سن رہے ،ہم نے سیاسی جماعتوں کے وکلا کو سننا ہے ۔ا

رضا ربانی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کا بیان آیا کہ 3 ماہ میں انتخابات ممکن نہیں، کوشش ہے آج دلائل مکمل ہوں اور مختصر فیصلہ آ جائے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم بھی جلدی فیصلہ چاہتے ہیں لیکن تمام فریقین کا مؤقف سنیں گے۔

مسلم لیگ ‏ن کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ آرٹیکل 95 کی ذیلی شق ایک کے تحت عدم اعتماد قرار داد جمع ہوئی، عدم اعتماد کی تحریک پر 152 ارکان کے دستخط ہیں، عدم اعتماد کو 161 ارکان نے پیش کرنے کی اجازت دی، 161 ارکان کی حمایت پر اسپیکر نے عدم اعتماد کی اجازت دی، عدم اعتماد پر مزید کارروائی 31 مارچ تک ملتوی کر دی گئی۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ رولز 37 کے تحت 31 مارچ کو عدم اعتماد پر بحث ہونی تھی، 31 مارچ کو قرار داد پر بحث نہہں کرائی گئی، 3 اپریل کو عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونی تھی، وزیراعظم اکثریت کھو دیں تو عہدے پر رہنا پارلیمانی جمہوریت کے خلاف ہے۔ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا تحریک عدم اعتماد پر کب کیا ہونا ہے یہ رولز میں ہے، آئین میں نہیں۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ رولز بھی آئین کے تحت ہی بنائے گئے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ تحریک پیش کرنے کی منظوری کیلئے 20 فیصد ارکان ضروری ہیں، 20 فیصد منظوری دیں لیکن ایوان میں موجود اکثریت مخالفت کرے تو کیا ہوگا ؟ وکیل نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہو جائے تو اس پر ووٹنگ ضروری ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کو رولز کے ذریعے غیر مؤثر نہیں بنایا جاسکتا، تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت رولز میں ہے۔

وکیل مخدوم علی نے دلائل دیئے کہ وزیراعظم برقرار رہیں گے یا نہیں فیصلہ ایوان ہی کرسکتا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ اصل سوال صرف ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا ہے۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اسپیکرکی رولنگ آئین کی خلاف ورزی ہے۔ اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا عدالت ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا جائزہ لے سکتی ہے ؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ غیر آئینی رولنگ کا جائزہ عدالت لے سکتی ہے، ایک شخص ایوان کی اکثریت کو سائیڈ لائن نہیں کرسکتا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عدالت فی الحال صرف آئینی معاملات کو دیکھنا چاہتی ہے۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت چاہے تو حساس اداروں سے بریفنگ لے سکتی ہے۔