ہمارے پاس ابھی تک وفاق کا جواب نہیں آیا اور اٹارنی جنرل بھی موجود نہیں۔فائل فوٹو
اٹارنی جنرل اورایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب سمیت دیگرفریقین کو نوٹس جاری کردیا۔فائل فوٹو

کوشش ہے کل فیصلہ سنا دیں،سماعت ملتوی کردی۔سپریم کورٹ

اسلام آباد:غیر معمولی سیاسی صورتحال پرسپریم کورٹ کے ازخود نوٹس میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نگران حکومت کا قیام اس کیس کی وجہ سے رکا ہوا ہے، کوشش ہے کہ کل فیصلہ سنا دیں، عدالت کا فوکس صرف ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ پر ہے، عدالت کی ترجیح ہے کہ صرف اس نقطے پر ہی فیصلہ ہو، عدالت ریاستی اور خارجہ پالیسی کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی، عدالت نے صرف اقدامات کی آئینی حیثیت کا جائزہ لینا ہے، عدالت پالیسی معاملات کی تحقیقات میں نہیں پڑنا چاہتی، تمام فریقین کو کہیں گے کہ اس نقطے پر ہی فوکس کریں۔

مخدودم علی خان نے کہا کہ اکثریت نہ ہونے پر وزیر اعظم کا رہنا جمہوریت کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے، سوال یہ ہے کہ کیا سپیکر کو اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنے کااختیار تھا۔ وزیر اعظم اکثریت کھو دے تو یہ پارلیمانی جمہوریت کے خلاف ہے ۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ عدم اعتماد پر کب کیا ہونا ہے ، یہ رولز میں ہے ، آئین میں نہیں ۔  وکیل مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ  رولز بھی آئین کے تحت ہی بنائے گئے ہیں ،  آرٹیکل 69 بے ضابطگیوں کو تحفظ فراہم نہیں کرتا۔

  دوران سماعت  خاتون وکیل  نے فریق بنانے کی استدعا کی جسے  چیف جسٹس نے مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ  فریق بننے کی درخواستیں نہیں سن رہے ۔خاتون وکیل نے کہا کہ سارا مسئلہ جس کی وجہ سے بناہے اس کو بلایا جائے سابق امریکی سفیر اسد امجد کو بلایا جائے ، اسد امجد کے خط کی وجہ سے سارا مسئلہ شروع ہوا ، عدالت نے  ریمارکس دیے کہ آپ بیٹھ جائیں ، ہم انفرادی درخواستیں نہیں سن رہے ،ہم نے سیاسی جماعتوں کے وکلاء کو سننا ہے ۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر لکھی ہوئی رولنگ  لائے اور پڑھ دی ،  ڈپٹی سپیکر رولنگ پڑھتے ہوئے سپیکر  کا نام بھی لے گئے تھے ، یعنی یہ سب کچھ پہلے سے طے تھا  ، اجازت چاہتا ہوں کہ ڈپٹی سپیکر  کی رولنگ پاس کرنے کی ویڈیو جمع کرانا چاہتا ہوں ۔

جسٹس  جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ  کیا ڈپٹی سپیکر ، سپیکر قومی اسمبلی سے تحریری  اجازت لئے  بغیر رولنگ پاس کر سکتا ہے ؟، ڈپٹی سپیکر کا سپیکر کے اختیارات استعمال کرنا آئینی ہے یا غیر آئینی ؟۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے پر پارلیمان میں اکثریت موجود تھی ، رولز کے تحت آئینی حق نظر انداز نہیں ہو سکتا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ  تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے  وقت 20 فیصد ممبران  کی موجودگی کا مقصد کیا ہے؟۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہماری پریکٹس نہیں ہے کہ ریاستی  پالیسی یا فارن پالیسی کے معاملات میں مداخلت کریں ، عدالت  سٹیٹ پالیسی یا فارن پالیسی کو نہیں دیکھتے ، ہمارے لئے  اچھا ہوگا اگر معاملے کو قانون  ، آئین کے تناظر میں پرکھا جائے ۔

اے این پی کے وکیل  شہباز کھوسہ  نے اپنے دلائل میں کہا کہ مجموعی طور پر مخدوم علی خان کے دلائل اپنا رہا ہوں ، جس قسم کے حالات لائے گئے غیر آئینی اقدام ہو سکتا ہے ۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ  آگاہ کریں کہ پارلیمان کس قسم کی تحریک منظورکر سکتا ہے ، تمام تحاریک کاموازنہ کرنا چاہتے ہیں ، پارلیمانی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتے ، پارلیمان کیلئے بے حد احترام ہے ،آج سماعت مکمل نہیں ہو سکتی ۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ تمام تحاریک کا موازنہ کرنا چاہتے ہیں، پارلیمان کی کارروائی میں مداخلت نہیں کرسکتے، پارلیمان کیلیے بے حد احترام ہے، ماضی میں عدالت غیر آئینی اقدامات پرپارلیمانی کارروائی میں مداخلت کرتی رہی ہے

تمام درخواست گزاروں نے  دلائل مکمل کر لیے ،عمران خان کی جانب سے  وکیل عدالت میں پیش ہوئے جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ عمران خان وزیر اعظم نہیں  رہے تو انکی نمائندگی کیسے کریں  گے۔ صدرعارف علوی کی جانب سے بیرسٹر علی ظفر  نے نمائندگی کی ۔

اٹارنی جنرل نے استدعا کہ کہ تمام وکلا کل دلائل مکمل کر لیں ، پرسوں مجھے موقع دیا جائے ،  یہ میری زندگی کا اہم ترین کیس ہے ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ  نگران حکومت کا قیام اس کیس کی وجہ سے رکا ہوا ہے ، کوشش ہے کہ کل فیصلہ سنا دیں ۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ نواز شریف کیس میں اسمبلی تحلیل ہوئی اور نگران حکومت بن چکی تھی ، عدالت نے نواز شریف کیس میں فیصلہ ایک ماہ بعد جاری کیا تھا ۔  قومی اہمیت کا کیس ہے ، تفصیلی معاونت کرنا چاہتا ہوں ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ وقت کم ہے لیکن جلد بازی میں فیصلہ نہیں کرنا چاہتے ۔

بابراعوان نے کہا کہ کل باضابطہ دلائل کا آغاز کروں گا۔ آج سماعت مکمل نہیں ہوسکتی۔ عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کردی۔