این اے 95 کے ووٹر نے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائرکر رکھی ہے۔فائل فوٹو
این اے 95 کے ووٹر نے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائرکر رکھی ہے۔فائل فوٹو

حمزہ شہباز کی حلف نہ لیئے جانے سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ

لاہور:لاہور ہائیکورٹ نے نومنتخب وزیراعلیٰ حمزہ شہباز کی حلف نہ لیئے جانے سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے ۔جسٹس جواد حسن نے فریقین کے وکلاکے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا۔عدالت نے تحریک انصاف کے وکیل کی ایم پی ایز کی فریق بننے کی درخواست منظورکرتے ہوئے دلائل دینے کی ہدایت جاری کردی ۔

لاہورہائیکورٹ میں حمزہ شہبازشریف کی حلف لینے سے متعلق تیسری درخواست پر سماعت ہوئی جس دوران جسٹس جواد حسن نے حمزہ شہباز کی درخواست پر اعتراض ختم کردیا، جسٹس جواد نے فائل واپس چیف جسٹس کو ارسال کر دی ، چیف جسٹس نے حمزہ شہبازکی درخواست سماعت کیلیے جسٹس فضل زمان خان کو بھجوا دی ۔

جسٹس جواد حسن نے حمزہ شہبازشریف کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا عدالتی وقت ختم ہو چکاہے ،وکیل نے جواب دیا کہ ہائیکورٹ رولز میں آپ کے پاس اتھارٹی موجود ہے آپ کورٹ ٹائم بڑھا سکتے ہیں، جسٹس جواد حسن نے ریمارکس دیئے کہ آج جمعتہ الوداع ہے ، نماز جمعہ کی ادائیگی کیلیے جار ہاتھا ،میں جب بھی نماز سے واپس آیا ، کیسز کا ڈھیر لگ جاتا ہے ،ہائیکورٹ تو آڈر پاس کر چکی ہے ،آپ توہین عدالت دائر کرلیتے ، دو فیصلے آ چکے ہیں ، ان پر عمل نہیں ہو رہا ، یہ پاکستان کی جوڈیشری کی عزت کا سوال ہے۔

جسٹس جواد حسن نے کہا کہ یہ اعلیٰ عدالتوں کی عزت کا سوال ہے ،چیف نے کیا آڈر پاس کیا ہے ، حمزہ شہباز کے وکیل نے چیف جسٹس کا آرڈر پڑھ کر سنایا، جسٹس جواد حسن نے کہا کہ ہم نے قانون کے مطابق ہی فیصلہ کرنا ہوتا ہے ، دیکھنا ہے کہ اگر گورنر حلف نہیں لیتے تو پھر آئین میں کیا طریقہ دیا گیاہے ،اشتراوصاف نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین پر عملدرآمد نہ ہونے سے بے یقینی کی فضا بڑھ رہی ہے ، عدلیہ ہی ہے جو بنیادی حقوق ، قوانین پر عملدرآمد کرواتی ہے ، عدالت نے کہا کہ جب عدلیہ کوئی حکم دے تو اس پرعملدرآمد سب پرفرض ہے ، میرے پاس دوبار عدالتی حکم پر نہ ہونے کے خلاف درخواست آئی،ایسا فیصلہ ہونا چاہیے جو قابل عمل ہو ،کیا کروں کسی اور کو حکم دوں کہ وہ حلف لے ۔

اشتر اوصاف نے دلائل دیئے کہ عدالتی حکم کو نہ ماننے پر سنگین نتائج نکلتے ہیں،ایک سابق وزیراعظم کو عدالتی حکم نہ ماننے پر سزا ہو چکی ہے ،جسٹس جواد حسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جمعہ کی نماز پڑھ کر واپس آتاہوں تو معاملات پربات ہو سکتی ہے ،آئینی راستہ نکال سکتے ہیں ، یہ پاکستان کی عدلیہ کی عزت کا سوال ہے ۔

پی ٹی آئی کے وکیل اظہر صدیق نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایم پی ایز نے فریق بننے کی درخواست دی ہے ، قانون کے مطابق انہیں فریق بننے کا موقع دیا جائے ، ہائیکورٹ نے جتنے بھی آرڈر پاس کیئے کسی میں بھی گورنر ، صدر کو نہیں سنا ، فریق کو سنے بغیرکیسے حکم جاری ہو سکتا ہے ۔

 دوران سماعت حمزہ شہباز کے وکیل اوراظہر صدیق کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی ،اظہر صدیق نے کہا کہ عدالت نے ہمارے حقوق کا بھی تحفظ کرناہے ،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ حلف برداری چیئرم ین سینیٹ بھی کرا سکتے ہیں، میری اطلاعات کے مطابق وہ پاسکتان میں نہیں ہیں، گورنر ، صدر حلف لے سکتے ہیں یا نمائندہ مقرر کر سکتے ہیں، یوسف رضا گیلانی کو عدالتی حکم نہ ماننے پر سزا دی گئی ، ،سپریم کورٹ کے فل بینچ نے سزا سنائی ، اور وہ قصور وار پائے گئے ۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ جب توہین عدالت میں وزیراعظم کو استثنیٰ حاصل نہیں تو گورنر کو کیسے ؟ جسٹس جواد حسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ تمام لوگ تحریر ی دلائل جمع کرائیں،میں تحریری دلائل کے بعد فیصلہ کروں دوں گا ،اڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ آج کی درخواست میں بھی گورنر فریق نہیں ، گورنر کا موقف سننا چاہیے ہر کوئی ان پر بحث کر رہاہے ،عدالت نے کہا کہ یہاں نقصان کس کا ہور ہاہے صوبے میں اتنے عرصے سے کابینہ نہیں ۔

اے اے جی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ قانون میں گنجائش نہیں کہ عدالت کیس کو حلف کیلئے مقرر کرے ، جسٹس جواد نے ریمارکس دیئے کہ میں عام طورپر کبھی لارجر بینچ کو معاملہ نہیں بھیجتا ، میں کوئی سپر مین تو نہیں ہوں ،م جھے معاملہ سمجھے دیں ۔

 عدالت نے اراکین اسمبلی کی فریق بننے کی درخواست منظور کر لی ہے اورتحریک انصاف کے وکیل اظہر صدیق کو دلائل دینے کی ہدایت کردی ہے ، فوری قانون کے مطابق دلائل مکمل کریں ۔