امت رپورٹ:
بھارت میں حضور پاکؐ کے خلاف توہین آمیز بیانات کے مرتکب ملعون بی جے پی رہنمائوں کی عدم گرفتاری پر مظاہرہ کرنے والے مسلمانوں کے گھر مسمارکر دیےگئے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق گستاخانہ بیانات کے خلاف احتجاج کی قیادت کرنے والے مسلمان رہنماؤں کے گھروں کو بلڈوزر کی مدد سے مسمار کردیا گیا۔ گھروں کی مسماری سہارنپور اور اترپردیش میں کی گئی۔ جبکہ ان ملک گیر مظاہروں کے دوران پولیس فائرنگ سے زخمی درجنوں عاشقان رسول میں سے دو نوعمر لڑکے ہفتے کے روز شہید ہوگئے۔
دوسری جانب مظاہروں میں حصہ لینے والے مسلمانوں کے خلاف بھارت بھر میں بڑے پیمانے پرکریک ڈائون جاری ہے۔ جمعہ اور ہفتے کی درمیانی شب شروع ہونے والے اس کریک ڈائون میں بھارتی میڈیا کے مطابق اب تک الہ آباد کے ایک مقامی مسلمان رہنما اور اس کے اہل خانہ سمیت ڈھائی سو سے زائد افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ تاہم آزاد صحافتی ذرائع کے مطابق ہفتے کی شام تک گرفتاریوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ یعنی سینکڑوں میں تھی اور یہ سلسلہ جاری تھا۔ بھارت کی مختلف ریاستوں بالخصوص اتر پردیش اور جھاڑکھنڈ میں مقامی حکام نے ہزاروں افراد کی ایک طویل فہرست بنائی ہے، جس کے تحت گرفتاریاں کی جائیں گی۔
بھارت کے ایوارڈ یافتہ صحافی عامر خان نے بتایا ہے کہ گستاخ نوین جندال اور ملعونہ نوپور شرما کی عدم گرفتاری کے خلاف اترپردیش میں مظاہرہ کرنے والے مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کیا جارہا ہے۔ جبکہ اس سلسلے میں متعدد گرفتاریاں بھی کی گئی ہیں۔ اترپردیش کے شہر سہارن پور کے ایس پی سٹی راجیش کمار نے اعتراف کیا ہے کہ جمعہ کی نماز کے بعد مظاہروں میںحصہ لینے والوں کو نا صرف گرفتار کیا جارہا ہے، بلکہ ان کے گھر بھی گرائے جارہے ہیں۔ ایس پی راجیش کمار نے اس کارروائی پر یہ مضحکہ خیز جواز گھڑا کہ جن لوگوں کے گھر مسمار کئے گئے، انہوں نے بغیر نقشے کے گھر بنا رکھے تھے۔
ہفتہ کے روز دوگرفتار افراد عبدالباقی اور مزمل کے گھروں کو بلڈوزر کی مدد سے گرایا گیا۔ ایس پی سٹی کے بقول یہ سزا اس لئے دی جا رہی ہے کہ لوگ کبھی دوبارہ اس طرح کے مظاہروں میں حصہ نہ لیں۔ ایس ایس پی آکاش تومار نے بھی اس کارروائی کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ سہارن پور کی انتظامیہ، ڈویلپمنٹ اتھارٹی، مجسٹریسی، ریونیو ٹیم، میونسپل کارپوریشن اور پولیس کی ایک مشترکہ ٹیم تشکیل دی گئی ہے، جو مظاہروں میں شریک مسلمانوں کی جائیدادوں اور مکانوں کو گرانے کی کارروائی کی نگرانی کرے گی۔ اس سلسلے میں اب تک مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور دوسو سے زائد کو شناخت کرلیا گیا ہے۔ ان سب کے گھروں کا جائزہ لیا جا رہا ہے کہ وہ نقشے کے مطابق بنائے گئے ہیں یا نہیں۔ ایک مقامی صحافی کے مطابق یہ کارروائی سو فیصد متعصبانہ ہے، جو گھر اب تک گرائے گئے ہیں، وہ کئی دہائیوں سے موجود تھے۔ اتنے طویل عرصے میں پہلے کبھی انتظامیہ کو یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ یہ مکانات نقشے کے بغیر تعمیر کئے گئے تھے۔
ادھر جمعہ کے مظاہروں میں موجود دو نوعمر مسلمان لڑکوں کی شہادت پر جھاڑکھنڈ ریاست کے دارالحکومت رانچی میں خاصی کشیدگی پائی جاتی ہے۔
چودہ سالہ مدثر اور انیس سالہ ساحل انصاری کے اہل خانہ نے الجزیرہ کو شہادت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ رانچی میں جمعہ کی نماز کے بعد پولیس نے ان مظاہرین پر سیدھی گولیاں چلائیں، جو بی جے پی کے دوگستاخ رہنمائوں کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہے تھے۔ نوعمر مدثر کے چچا کے مطابق ان کے بھتیجے کو پولیس نے سر میں گولی ماری تھی۔ اسے انتہائی تشویشناک حالت میں راجندر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں لایا گیا تھا، جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔ مدثر والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اپنے پھول جیسے بچے کی شہادت کے سبب اس کی والدہ کی طبیعت ناساز ہے۔
این ڈی ٹی وی کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے غم سے نڈھال والدہ نے بتایا ’’واقعہ سے چند منٹ پہلے میری مدثر سے موبائل فون پہ بات ہوئی تھی۔ میں نے اسے تاکید کی تھی کہ بیٹا بھیڑ میں مت جانا اور اس نے مجھے کہا تھا کہ ممی، میں الگ کھڑا ہوا ہوں۔ کچھ دیر بعد اس کے دوست کا فون آگیا کہ مدثر کو گولی لگ گئی ہے۔ میرا دنیا میں اب کوئی نہیں رہا۔ مدثر میرا اکلوتا بیٹا تھا، جو ظالموں نے مجھ سے چھین لیا۔ مجھے کون انصاف دے گا۔ ‘‘ واقعہ کے وقت موقع پر موجود مدثر کے دوست نے بتایا کہ پرامن مظاہرہ کرنے والوں پر جب پولیس نے گولی چلائی تو بھگدڑ مچ گئی۔ مدثر ایک الگ جگہ پر کھڑا ہوا نعرے لگا رہا تھا۔ اور ایک دم نیچے گرگیا۔ جب وہ اور دیگر دوست اس کے قریب پہنچے تو اس کے سر سے خون بہہ رہا تھا۔ جس پر اسے فوری اسپتال لے جایا گیا۔ لیکن اس کی جان نہیں بچائی جاسکی۔
پولیس فائرنگ سے شہید ہونے والے انیس سالہ ساحل کے بھائی فیضان نے بتایا کہ نماز جمعہ کے بعد گھر واپس آتے ہوئے اسے کمر پر گولی لگی تھی۔ فیضان کا کہنا تھا ’’پولیس کی جانب سے چلائی جانے والی گولی سے میرے بھائی کا گردہ پھٹ گیا اور وہ کچھ دیر بعد ہی اسپتال میں دم توڑ گیا۔‘‘ فیضان کے مطابق ساحل شہر میں بیٹری ٹھیک کرنے کی دکان چلاتا تھا۔
بھارتی ریاست جھاڑکھنڈ کے دارالحکومت رانچی کے بارہ پولیس اسٹیشنوں کی حدود میں تاحال دفعہ ایک سو چوالیس نافذ ہے۔ جبکہ اضافی سیکورٹی فورسز تعینات کی گئی ہیں۔ ضلعی انتظامیہ نے انٹرنیٹ سروس کی معطلی میں بھی آج اتوار تک توسیع کردی ہے۔ جھاڑ کھنڈ کے وزیراعلیٰ ہیمنت سورین نے ڈیزاسٹر مینجمنٹ اینڈ ٹورزم کے سیکریٹری امیتابھ کوشل اور اے ڈی جی سنجے پر مشتمل ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ یہ کمیٹی رانچی میں ہونے والی دو اموات اور مظاہروں کے حوالے سے تحقیقات کرے گی اور سات دن میں وزیراعلیٰ کو اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔
ادھر اترپردیش کے معروف صحافی پیوش رائے نے بتایا ہے کہ جمعہ کو ریاست کے نو اضلاع میں ہونے والے احتجاج کے بعد ہفتہ کی شام تک مجموعی طور پر تیرہ ایف آئی آر درج کی جاچکی تھیں جبکہ دوسو سینتیس افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اس دوران اترپردیش میں سماج وادی پارٹی کے سابق سٹی سیکریٹری نظام قریشی کو پولیس نے گرفتار کرلیا ہے۔ کانپور پولیس کے مطابق نظام قریشی شہر میں ہونے والے مظاہرے کے ماسٹر مائنڈ ہیں۔ جبکہ اترپردیش کے شہر الہ آباد (پریاگ راج) میں ایک مسلمان رہنما اور ویلفیئر پارٹی آف انڈیا سے وابستہ جاوید محمد کو بھی اہل خانہ سمیت پولیس نے حراست میں لے لیا ہے۔
جاوید محمد کی بیٹی آفرین فاطمہ ایک اسٹوڈنٹ رہنما ہیں اور پہلے ہی مسلمان طلبہ کے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے پر انتظامیہ کی آنکھوں میں کھٹکتی ہیں۔ بھارت کے خواتین کمیشن کو اپنی شکایت میں آفرین فاطمہ نے بتایا کہ یوپی پولیس بغیر وارنٹ کے ان کے گھر میں داخل ہوئی اور ان کے والد جاوید محمد، والدہ پروین فاطمہ اور بہن سمیعہ فاطمہ کو بغیر کسی نوٹس یا وارنٹ کے اٹھالیا گیا۔ آفرین فاطمہ کے مطابق وہ اپنے والد، والدہ اور بہن کا پتہ لگانے سے قاصر ہیں کیونکہ انہیں نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ہے۔