بارش چلتی رہی تو کیچڑ، گند یا پانی میں کھڑے رہنے سے جانور بیمار ہوسکتے ہیں۔فائل فوٹو
بارش چلتی رہی تو کیچڑ، گند یا پانی میں کھڑے رہنے سے جانور بیمار ہوسکتے ہیں۔فائل فوٹو

کراچی مویشی منڈی میں بیماریاں پھوٹنے کا خطرہ

اقبال اعوان:

سپر ہائی وے پر لگنے والی کراچی کی مویشی منڈی میں لائے گئے جانوروں میں مختلف بیماریاں پھیلنے کا خدشہ بڑھ رہا ہے۔ دو روز قبل شہر میں ہلکی بارش ہونے کے بعد مویشی منڈی کے بیشتر علاقے دلدل جیسا منظر پیش کر رہے تھے۔

گزشتہ روز بھی منڈی میں اکثر چھوٹے بڑے جانور کئی انچ گہری کیچڑ میں کھڑے نظر آئے۔ دوسری جانب منڈی میں روایتی گہما گہمی بھی دکھائی نہیں دیتی۔ اس کی وجہ بیوپاریوں کی جانب سے مانگے جانے والے انتہائی مہنگے ریٹ ہیں۔ جس کے باعث منڈی میں لائے گئے تقریباً سوا چار لاکھ چھوٹے بڑے جانوروں میں سے گزشتہ شام تک محض تیس فیصد ہی فروخت ہو سکے تھے۔ جبکہ کئی بیوپاریوں کا شکوا ہے کہ مویشی منڈی میں ہونے والے اخراجات میں بیجا اضافہ کیا گیا ہے۔ تاجر ٹرانسپورٹ کرایے ، راستوں میں کانگو وائرس انجکشن ، لمپی اسکن ویکسین اور دوسرے بہانوں اور چنگی کے نام پر خاصی رقم بھتے کے طور پر دے کر منڈی آتے رہے۔ اوراب یہاں پر انٹری فیس ، پلاسٹک کے پانی والے ڈرم، جگہیں خریدنے کے ساتھ ساتھ مہنگا چارہ، مہنگا اضافی پانی ، دوگنے ریٹ پر چارہ ، بھوسہ ، بھالو مٹی کے ٹرک ڈلوانے ، ترپال لگوانے ، تاجروں اور جانوروں کی دوائیوں کے مہنگا ہونے سے پریشان تاجروں کو جانور سنبھالنے مشکل ہورہے ہیں۔ منڈی میں اکثر جانور گند کچرے، کیچڑ اور پانی میں کھڑے ہوکر بیمار ہورہے ہیں۔ بڑے جانوروں میں منہ کھر اور بکرے دنبوں میں دست نمونیا کا سلسلہ شروع ہونے کا خدشہ ہے۔

واضح رہے کہ سہراب گوٹھ پر ہر سال 9 سو ایکڑ پر مویشی منڈی لگتی تھی۔ اس بار 2 ہزار ایکڑ رقبے پر منڈی لگی ہے۔ اب تک سوا چار لاکھ بڑے چھوٹے جانور لائے جاچکے ہیں اور روزانہ 5 سے 10 ہزار جانوروں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ ادھر شہر بھر میں سال بھر لگنے والی کٹائو مویشی منڈیوں بلدیہ، ملیر اور لانڈھی میں بقرعید کے لئے جانور بڑی تعداد میں آچکے ہیں۔ شہر میں غیر قانونی منڈیاں بھی لگ چکی ہیں۔ لیاقت آباد، برنس روڈ، شاہ فیصل کالونی ، بنارس ، قیوم آباد ، قائدآباد اور دیگر علاقوں کے علاوہ شام سے رات تک چوراہوں ، سڑک کے کنارے ، گلیوں میں بڑے چھوٹے جانور فروخت کئے جارہے ہیں۔ شہر میں چارہ ، دانہ ، بھوسہ مہنگا ہے۔

مویشی منڈی میں سروے کے دوران دیکھا گیا کہ منگل کی دوپہر تک خریدار دور دور تک نظر نہیں آر ہے تھے۔ جانوروں کی بڑی تعداد منڈی میں موجود تھی۔ منڈی میں چونکہ سڑکیں، اندرونی روڈ عارضی طور پر صاف کرکے تیار کئے جاتے ہیں اور نشیبی حصوں پر بارش کا پانی جمع ہوتا ہے۔ اس لیے پیر کی رات ہونے والی چند منٹ کی بارش نے منڈی کا حشر نشر کردیا تھا۔ ہر طرف پانی نظر آتا تھا۔ اس بار بارش کا سلسلہ عین عید سے کچھ روز قبل شروع ہوا ہے اور یہ تیزی کے دن ہوتے ہیں۔ تاہم خریدار پریشان ہیں کہ جانور بیمار ہوئے یا فروخت نہ ہونے کے بعد کیا ہوگا؟ اتنی مہنگائی میں لوگ کئی روز سے جانوروں کے ریٹ معلوم کر رہے تھے کہ شہر میں کتنا ریٹ ہے اور سہراب گوٹھ منڈی کے ریٹ سن کر نکل جاتے ہیں۔

اب مویشی منڈی 24 گھنٹے کھلی ہے۔ تاہم کیٹل فارمز والے شام سے رات گئے تک کھولتے ہیں۔ کراچی میں زیادہ تر کراچی کے فارمز والے آن لائن فروخت اور جانور گھروں پر دے کر جارہے ہیں۔ مویشی منڈی میں زیادہ تر ساہیوال ، ملتان ، خانیوال اور دیگر شہروں کے کیٹل فارمز کے جانور موجود ہیں۔ کیٹل فارمز والے اپنے جانوروں کو تمام اخراجات جو استعمال کے ساتھ فروخت کر رہے ہیں اور تین گنا تک ریٹ لگارہے ہیں۔ منڈی میں پہلے بڑا جانور گائے بیل سندھ سے زیادہ آتے تھے۔ اس بار سندھ میں لمپی اسکن پھیلنے کے بعد جب جب 50 ہزار سے زائد جانور متاثر ہوئے تو وہاں سے بڑا کم جانور آیا ہے۔ جبکہ پنجاب کے مختلف شہروں سے زیادہ آیا ہے۔ سانگھڑ، کشمور، خیرپور، نواب شاہ، عمر کوٹ ، چھور، حیدرآباد، میرپور خاص، بدین کے علاوہ سندھ کے دیگر علاقوں سے اور پنجاب کے جنوبی پنجاب کے شہروں اور خانیوال، ساہیوال، ملتان سمیت دیگر شہروں سے بھی جانور آیا ہے۔ کراچی کے شہری زیادہ تر بڑا جانور لیتے ہیں کہ بکرے کی قیمتیں زیادہ ہیں اور دو بکرے کی قیمت میں گائے آجائے گی۔ مویشی منڈی میں آنے والے جانوروں کو ڈاکٹرز کی ٹیم چیک کرتی ہے۔ اگر ٹرک ، ٹرالر پر ایک جانور بھی لمپی اسکن والا نکلتا ہے تو سارا ٹرک واپس کرتے ہیں۔ سندھ کے کئی شہروں سے آنے والے ٹرک ، ٹرالر واپس کرچکے ہیں۔ مویشی منڈی میں گزشتہ سال سے گائے بیل ، اونٹ بکروں دنبوں کے نرخ دوگنے یا مزید زیادہ ہیں۔

’’امت‘‘ نے منڈی کے فوکل پرسن آصف علی سید سے بات چیت کی۔ ان کا کہنا ہے کہ 2 ہزار ایکڑ پر محیط منڈی میں سوا 4 لاکھ بڑا چھوٹا جانور آچکا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک بھر سے جانور آرہے ہیں۔ اونٹ، بکرے ، دنبے گزشتہ سال سے زیادہ آئے ہیں۔ پنجاب سے گائے ، سندھ سے بیل ، بلوچستان سے اونٹ، سندھ پنجاب اور بلوچستان سے دنبے ، سندھ اور پنجاب سے بکرے زیادہ آئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ روزانہ 5 سے 10 ہزار گاڑیوں میں آنے کا علم ہے۔ مہنگائی کا گراف اوپر جارہا ہے جانور تو مہنگا ہوگا۔ لمپی اسکن بیماری میں مبتلا جانور آغاز کے راستے پر انٹری کے دوران چیک کرنے پر واپس کردیتے ہیں۔ منڈی میں کوئی ایسا کیس نہیں آنے دیا گیا۔

’’امت‘‘ کو کشمور سے گائے لے کر آنے والے اللہ بخش نے بتایا کہ 1800 روپے فی بڑا جانور انٹری فیس 2500 روپے کے 8 پلاسٹک کے ڈرم، جگہ کے پیسے 85 ہزار، سیور بلب کے روزانہ 2ہزار وصول کئے گئے۔ اب بارش ہوئی تو بالو مٹی جو پہلے 10/15 ہزار کا مزدا ٹرک ڈلوایا، اب دوگنی قیمت کا ہوگیا۔ کشمور سے راستے بھر چنگی دو ، جانور چیک کرائو ، پولیس کا بھتہ دو، ادھر آکر کنگال ہوگئے جانور لے کر بیٹھے ہیں۔ 15 روز میں ایک جانور فروخت نہیں ہوا۔ گزشتہ سال جو جانور 40 ہزار کا تھا۔ اب ایک لاکھ 20 ہزار کا ہے ادھر منڈی میں چارہ ، بھوسہ ، دانہ مہنگا بلکہ دوتین گنا مہنگا۔ پینے کا پانی کھانے پینے کی اشیا کے ریٹ شہر سے دوتین گنا۔ تاجروں اور جانوروں کی دوائیاں دو سے تین گنا مہنگی۔ اب پریشان ہیں کہ بارش کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ جانور کیچڑ، گندے پانی میں کھڑا ہوگا تو کھر خراب ہوگا اس میں کیڑے پڑتے ہیں اور زبان سے چاٹے گا تو منہ میں کیڑوں سے چھالے آجائیں گے اور جانور بیمار ہوجائے گا۔ عید میں تین چار روز رہ گئے۔ جانور فروخت نہیں ہوئے تو کیا ہوگا۔ اتنا زیادہ کرایہ واپسی کا کون دے گا؟

منڈی میں چھوٹے سائز کے بچھڑے کے بھی ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے طلب کیے جا رہے ہیں۔ 15 سے 20 کلو والا بکرا 45 ہزار کا مل رہا ہے اور گوشت فی کلو 3 ہزار روپے کے حساب سے پڑ رہا ہے۔ دنبہ 15 سے 20 کلو والا 40 سے 45 ہزار روپے تک مل رہا ہے۔ بکروں کے تاجر رحمان کا کہنا تھا کہ نواب شاہ سے بکرے لائے ہیں۔ اس منڈی کے اندر اتنا مختلف طریقوں سے تنگ کرکے اتنا معاوضہ لیا گیا کہ ہمیں مجبور ہوکر ریٹ دوگنے یا تین گنا رکھنے پڑے ہیں۔ 1200 روپے فی بکرا انٹری فیس اور دیگر اخراجات نے ہمارا بھرکس نکال دیا ہے اور خریدار نظر نہیں آرہا ہے۔ پریشان ہیں کہ بارش زیادہ ہوئی تو بکرے بیمار ہوجائیں گے؟ اس بار اونٹ بھی کئی ہزار آئے ہیں۔ کوئٹہ ، جھل مگسی ، ڈیرہ مراد جمالی، سندھ کے ساحلی علاقوں اور صحرائی علاقوں سے اونٹ آئے ہیں۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ 1800 روپے فی اونٹ انٹری اور 27 اونٹوں کو پانی مفت سارا دن میں 25 لیٹر ملتا ہے۔ جبکہ اونٹ 24 گھنٹے میں تین بار پیتا ہے اور روزانہ 200 لیٹر خرید کو ان کو پلواتے ہیں۔ اونٹوں کا حصہ قریشی کوآپریٹو سوسائٹی کی جانب سے جو خاصا دور ہے اور پانی والامہنگا پانی لاکر دیتا ہے اور یہ خریدتے ہیں۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ اونٹ پیاس اور بھوک سے بلبلارہے ہیں کہ چارہ ، دانہ تین گنا مہنگا ہے ۔ گزشتہ سال سے پانی دو گنا اور تین گنا مہنگا مل رہا ہے۔ گزشتہ سال سے اونٹوں کی قیمت ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے بڑھ گئی ہیں۔

جانوروں کے ڈاکٹر ریاض کا کہنا تھا کہ بارش چلتی رہی تو کیچڑ، گند یا پانی میں کھڑے رہنے سے جانور بیمار ہوسکتے ہیں۔ بڑے جانوروں میں منہ کھر اور بخار جبکہ بکروں اور دنبوں میں نمونیہ اور دست کی بیماری ہوسکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جانوروں کی دوائیاں خاصی مہنگی ہیں۔ ادھر منڈی میں موجود سوزوکی کیری ، ڈاٹسن مزدا ٹرک والے گزشتہ سالوں سے تین گنا کرایے وصول کر رہے ہیں۔ منڈی سے بکرے لے کر شاہ فیصل کالونی جانے والے شخص کو فی بکرا تین ہزار روپے کے حساب سے بک کرانا پڑا۔