چاروں افراد کا تعلق سابق حکمراں آنگ سان سوچی کی جماعت سے تھا (فائل فوٹو)
چاروں افراد کا تعلق سابق حکمراں آنگ سان سوچی کی جماعت سے تھا (فائل فوٹو)

میانمار، فوجی بغاوت کے 4 مخالفین کو سزائے موت دیدی گئی

میانمارمیں کئی دہائیوں سے سزائے موت عملی طور پر معطل تھی لیکن اب وہاں کی فوجی حکومت نے چار افراد کو پھانسی کی سزا دے دی ہے جس میں دو سابق قانون ساز بھی شامل ہیں۔

میانمار کی سابق حکمران آنگ سان سوچی کی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے دو سابق قانون سازوں سمیت چار افراد کو پھانسی دے دی گئی ہے۔ اس اقدام سے تقریباً 50 سال سے غیر فعال موت کی سزا دوبارہ فعال ہوئی ہے۔

میانمار کی فوجی حکومت نے سوموار کو جن چار افراد کی پھانسی کی سزا پر عملدرآمد کیا ان پر مقامی اخبار گلوبل نیو لائٹ کے مطابق ’پُر تشدد اور غیر انسانی دہشت کی کارروائیاں‘ سرانجام دینے کا الزام تھا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پھانسی پانے والے افراد میں سے ایک 41 سالہ فیو زیا تھا ہیں، جن کا تعلق سوچی کی سیاسی جماعت سے تھا۔ انہیں گذشتہ سال نومبر میں فوجی حکومت نے گرفتار کیا تھا اور ایک ٹریبونل نے انہیں رواں سال جنوری میں سزائے موت سنائی تھی۔

فیو زیا تھا 1988 میں اس وقت کی فوجی حکومت کے خلاف طلبہ کی بغاوت میں پہلی مرتبہ سیاسی منظر نامے پر ابھرے تھے۔

پھانسی پانے والے دوسرے شخص 53 سالہ کیا من یو ہیں، جو ’جمی‘ کے نام سے زیادہ مشہور تھے۔

جمی ایک جمہوری کارکن تھے اور انہیں بھی فوجی ٹریبونل نے سزائے موت دی تھی۔ ان پر فوجی حکومت کے خلاف کئی حملوں کی منصوبہ بندی کا الزام تھا۔ ان مبینہ حملوں میں سے ایک رنگون کی مسافر ٹرین میں کیا گیا جس میں پانچ افراد مارے گئے تھے۔

جمی 2008 میں اس وقت کی فوجی حکومت کے دوران بھی جیل جا چکے ہیں۔ اس وقت ان کے گانوں کے بول نے فوجی حکومت کو پریشان کیا تھا اور انہیں کلعدم تنظیم کی رکنیت اور غیر ملکی کرنسی رکھنے کے الزام میں قید کی سزا ہوئی تھی۔