اسلام آباد: سپریم کورٹ میں وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخابی عمل میں ڈپٹی اسپیکر رولنگ کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کی فل کورٹ بنانے کے لیے مزید قانونی وضاحت درکار ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیخلاف پرویز الہی کی درخواست پر سماعت کررہا ہے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فل کورٹ بہت سنجیدہ اور پیچیدہ معاملات میں بنایا جاتا ہے، یہ معاملہ پیچیدہ نہیں ہے۔
منصور اعوان نے دلائل دیے کہ چار سیاسی جماعتوں کے سربراہ پارلیمانی پارٹی کا حصہ نہیں ہیں، مثلا جے یو آئی ف پارٹی سربراہ مولانا فضل الرحمان کے نام پر ہے، لیکن وہ پارلیمانی پارٹی کا حصہ نہیں ہیں، عوام میں جواب دہ پارٹی سربراہ ہوتا ہے پارلیمانی پارٹی نہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ منحرف رکن کیخلاف پارٹی سربراہ ہی ریفرنس بھیجنے کا فیصلہ کرتا ہے، مگر ووٹ کس کو ڈالنا ہے یہ ہدایت پارلیمانی پارٹی دے گی اور ریفرنس سربراہ بھیجے گا، برطانیہ میں تمام اختیارات پارلیمانی پارٹی کے ہوتے ہیں، پارلیمان کے اندر پارٹی سربراہ کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے عدالتی فیصلہ درست مانتے ہوئے ہی رولنگ میں اس کا حوالہ دیا تھا، یعنی ووٹ مسترد ہونے کی حد تک عدالتی فیصلہ تسلیم شدہ ہے، سوال صرف ڈپٹی اسپیکر کی تشریح کا ہے کہ درست کی یا نہیں، آئین واضح ہے کہ ارکان کو ہدایت پارلیمانی پارٹی دے گی، آپ کا مؤقف ہے کہ ڈپٹی اسپیکر کی تشریح درست ہے، اگر عدالتی فیصلہ غلط ہے تو ووٹ مسترد بھی نہیں ہو سکتے۔