ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس۔فیصلہ محفوظ ،پونے چھ بجے سنایا جائے گا

اسلام آباد:سپریم کورٹ میں ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس کی سماعت مکمل ہوگئی،عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا جو پونے چھ بجے یعنی5 بج کر45 منٹ پر سنایا جائے گا۔

دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ فیصلے سے قبل کچھ باتیں سامنے رکھے ، تین ماہ سے وزیراعلیٰ پنجاب کا معاملہ زیر بحث تھا ،ق لیگ کے تمام ارکان کو علم تھا کہ کس کو ووٹ دینا ہے ، میری گزارش ہو گی کہ الیکشن سے قبل کا بھی سارا ریکارڈ دیکھا جائے ، سپریم کورٹ تمام پہلوﺅں کو مد نظر رکھے ۔

پاکستان کی سپریم کورٹ میں وزیر اعلیٰ پنجاب کے متنازع انتخاب پر ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے معاملے پر سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بھی آرٹیکل 63 اے کی تشریح کی کوشش کی ہے، جو اچھی ہے لیکن درست نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سوال یہ تھا کہ ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کس طرح عدالتی رائے کے مطابق ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ ہدایات پارٹی سربراہ جاری کرتا ہے یا پارلیمانی پارٹی سربراہ؟

 ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے مختصر رائے میں کہا منحرف اراکین کا ووٹ شمار نہ کیا جائے، پارٹی سربراہ یا پارلیمانی پارٹی بارے تفصیلی بحث نہیں کی گئی۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا عدالتی مبہم ہے۔ اس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ کوئی ابہام نہیں ہے۔کون پارٹی سربراہ ہے، کون پارلیمانی پارٹی سربراہ ہوتا ہے سب واضح ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارٹی سربراہ کو ووٹ کے لیے ہدایات بارے آٹھ ججوں کا فیصلہ جب تک کالعدم یا نظرثانی نہ کی جائے وہی اصول رہے گا۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آپ کی دلیل عجیب و غریب ہے۔ وہاں اس کیس میں تو ووٹنگ کا سوال ہی نہیں تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اٹھارہویں اور اکیسویں ترمیم میں اکثریتی رائے کا اطلاق ہم پر لازم نہیں ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اٹھارویں،اکیسویں ترمیم کیس فیصلے کا اطلاق لازم ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن کے فیصلے پر اطلاق ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی پر لازم ہے جس کے جواب میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ نہیں اطلاق لازم نہیں ۔ آپ کے دلائل مطابقت نہیں رکھتے، اگر ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کے ذہن میں اکیسویں ترمیم کیس فیصلہ تھا تو اسے لکھنا چاہیے تھا۔

قبل ازیں سپریم کورٹ میں ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس کی سماعت شروع ہوتے ہی عرفان قادر اور فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو کارروائی کے بائیکاٹ سے آگاہ کر دیا، چوہدری پرویز الٰہی کے وکیل علی ظفر نے اپنے دلائل مکمل کر لیے ہیں جس کے بعد عدالتی کارروائی میںڈھائی بجے تک وقفہ کیا گیا،اب سماعت دوبارہ شروع ہو چکی ہے۔

 چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ پرویزالہیٰ کی درخواست پر سماعت کر رہاہے ، بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن اورجسٹس منیب اختر شامل ہیں ۔ عرفان قادر نے عدالت میں بتایا کہ میرے موکل کی ہدایت ہے کہ عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں بننا، ملک میں عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ چل رہاہے ،فل کورٹ کے حوالے سے فیصلے پر نظر ثانی دائرکریں گے ،فاروق نائیک نے بھی کارروائی کے بائیکاٹ سے آگاہ کر دیا اور کہا کہ میرے موکل کی جانب سے بھی یہی ہدایت ہے ، عدالت نے فاروق نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ تو کیس کے فریق ہی نہیں ،اصل سوال تھا کہ ارکان کو ہدایت کون دے سکتا ہے ۔

چیف جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئین پڑھنے سے واضح ہے کہ ہدایت پارلیمانی پارٹی نے دینی ہے ،اس سوال کے جواب کیلئے کسی مزید قانونی دلیل کی ضرورت نہیں ہے ،یہ ایسا سوال نہیں تھا کہ اس پر فل کورٹ تشکیل دی جاتی ،اس سوال کے جواب کیلئے کسی مزید قانونی دلیل کی ضروت نہیں ،اس کیس کو جلد مکمل کرنے کوترجیح دیں گے ، فل کورٹ بنانا کیس کو غیر ضروری التواءکا شکار کرنے کے مترادف ہے ،فل کورٹ بنتا تو معاملہ ستمبر تک چلا جاتا کیونکہ عدالتی تعطیلات چل رہی ہیں ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے میں عدالتی فیصلوں سے واضح ہے کہ پارلیمانی پارٹی کی ہدایت پر عمل کرنا ہو تاہے ، جسٹس عظمت سعید نے فیصلے میں پارٹی سربراہ کی ہدایت پر عمل کرنے کا کہا ،فریقین کے وکلاءکو بتایا تھا کہ آئین گورننس میں رکاوٹ کی اجازت نہیں دیتا ، صدر کی سربراہی میں 1988 میں نگران کا بینہ سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دی تھی ، عدالت کا مؤقف تھا کہ وزیراعظم کے بغیر کابینہ نہیں چل سکتی ،فل کورٹ کی تشکیل کیس لٹکانے سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا 17 میں سے 8 ججز کی رائے کی سپریم کورٹ پابند ہو سکتی ہے ؟فل کورٹ بینچ کی اکثریت نے پارٹی سربراہ کے ہدایت دینے سے اتفاق نہیں کیا تھا ،آرٹیکل 63 اے کیس میں ہدایات کے معاملے پر کسی وکیل نے کوئی دلیل نہیں دی تھی،عدالت کو پارٹی کی ہدایات یا پارلیمانی پارٹی ڈائریکشنز پر معاونت درکارہے ۔

چیف جسٹس نے وکیل علی ظفر کو ہدایت کہ کہ قانونی سوالات پر معاونت کریں یا پھر ہم اس بینچ سے الگ ہو جائیں ، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جو دوست مجھے جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ اپنے کام کو عبادت کا درجہ دیتا ہوں ،میرے دائیں بیٹھے حضرات نے اتفاق رائے سے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کر دیاہے ،شکر ہے کہ اتنی گریس باقی ہے کہ عدالتی کاررواوئی سننے کیلئے بیٹھے ہیں ۔

پرویز الٰہی کے وکیل علی ظفر نے دلائل شروع کر دیئے ہیں ،اکسیویں ترمیم کے خلاف درخواستیں فل کورٹ میں 4/13 کے تناسب سے خارج ہوئی تھیں ،درخواستیں خارج کرنے کی وجوہات بہت سے ججز نے الگ الگ لکھی تھیں ۔اکیسویں ترمیم کیس میں جسٹس جواد خواجہ نے آرٹیکل 63 اے کو خلاف آئین قرار دیا ،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 63 اے کی کچھ شقوں کو جسٹس جواد ایس خواجہ نے آئین سے متصادقم قرار دیا ، علی ظفر نے کہا کہ جسٹس خواجہ کی رائے تھی آرٹیکل 63 اے ارکان کو آزادی سے ووٹ دینے سے روکتا ہے ، ، جسٹس جواد خواجہ نے فیصلے میں اپنی رائے کی وجوہات بیان نہیں کیں، جسٹس جواد خواجہ کی رائے سے اتفاق نہیں کرتا ۔.

چیف جسٹس نے پرویز الٰہی کے وکیل علی ظفر سے استفسار کیا کہ آئین کیا کہتاہے کہ کس کی ہدایت پر ووٹ دیا جائے ، آئین کے مطابق ووٹ کی ہدایت پارلیمانی پارٹی دی ہے ؟ کیا پارلیمانی پارٹی اور پارٹی سربراہ الگ ہیں ؟ علی ظفر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمانی جماعت اور پارٹی لیڈر دو الگ الگ چیزیں ہیں، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ کیا پارٹی سربراہ صرف سیاسی جماعت کا سربراہ ہوتاہے ،چیف جسٹس نے علی ظفر سے سوال کیا کہ آئین کیا کہتا ہے کہ کس کی ہدایت پر ووٹ دیاجائے ، آئین کے مطابق ووٹ کی ہدایات پارلیمانی پارٹی دیتی ہے ،جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آئین کے تحت پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کے فیصلے پر عملدرآمد کرواتا ہے ، چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی اپنے طور پر توکوئی فیصلہ نہیں کرتی ،جماعت کا فیصلہ پارلیمانی پارٹی کو بتایا جاتاہے ، جس کی روشنی میں وہ فیصلہ کرتی ہے ، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارٹی سربراہ کی کیا تعریف ہے ؟کیا پارٹی سربراہ صرف سیاسی جماعت کا سربراہ ہو تاہے ،وکیل علی ظفر نے کہا کہ پرویز مشرف دور میں پارٹی سربراہ کی جگہ پارلیمانی سربراہ کا قانون آیا تھا ،18 ویں ترمیم میں پرویز مشرف کے قانون کو ختم کیا گیا ۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمانی لیڈر والا لفظ کہاں استعمال ہوا ، علی ظفر نے کہا کہ 2002میں سیاسی جماعتوں کے قانون میں پارلیمانی پارٹی کاذکرہوا،جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹری پارٹی کی جگہ پارلیمانی لیڈرکالفظ محض حقائق پر غلطی تھی،18 ویں اور 21 ویں ترامیم کے کیسز میں آرٹیکل 63 کی صرف شقوں کو دیکھا گیا ،آرٹیکل 63 اے سے متعلق پارٹی لیڈر کا معاملہ ماضی میں تفصیل سے نہیں دیکھا گیا ۔

چوہدری پرویز الٰہی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ آئین کا جائزہ لے کر قانون میں تبدیلی کا حکم دے سکتی ہے ، سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں ترمیم بھی کر سکتی ہے ، ۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جج کے بار بار اپنی رائے تبدیل کرنے سے اچھی مثال نہیں ہوتی ، جج کی رائے میں یکسانیت ہونی چاہیے ،میں اپنی رائے تب ہی بدلوں گا جب ٹھوس وجوہات دی جائیں گی ۔وکیل علی ظفر کے درخواست پر دلائل مکمل ہو گئے ہیں ۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحما روسٹرم پر آئے اور کہا کہ عدالت کی خدمت میں چند گزارشات پیش کرنا چاہتاہوں ،جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا وفاقی حکومت حکمران اتحاد کے فیصلے سے الگ ہو گئی ہے ،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 27 اے کے تحت عدالت کی معاونت کروں گا ، چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلے میں کوئی غلطی نہ ہو جائے اس لیے سب کو معاونت کی کھلی دعوت ہے ۔