اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ آج عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کرے گا۔
گزشتہ روز عمران خان نے 19 صفحات پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ میں نیا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جس میں انہوں نے کہا کہ غیر ارادی طور پر بولے گئے الفاظ پر افسوس ہے۔
تحریری جواب میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ عمران خان کا مقصد خاتون جج کی دل آزاری کرنا نہیں تھا۔ اگر خاتون جج کی دل آزاری ہوئی تو اس پر افسوس ہے۔
جواب میں کہا گیا ہے کہ اپنے الفاط پر خاتون جج سے پچھتاوے کا اظہار کرنے پر بھی شرمندگی نہیں ہوگی۔ مجھے ضمنی جواب جمع کروانے کا موقع ملا تو پولیٹکل پوائنٹ سکورنگ کرنے والوں نے تنقید کی۔ انصاف کی فراہمی کیلئے عدلیہ بشمول ماتحت عدلیہ کو مضبوط کرنے پر یقین رکھتا ہوں۔خاتون ججز کی اعلیٰ اور ماتحت عدلیہ میں زیادہ سے زیادہ بھرتی کا حمایتی ہوں۔
انہوں نے لکھا کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ ہائیکورٹ میں شہباز گل کیس کی اپیل زیرالتوا ہے۔مجھے لگا کہ ماتحت عدالت نے جسمانی ریمانڈ دیدیا تو بات وہاں ختم ہو گئی۔شہباز گل پر ٹارچر کی خبر تمام پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر آئی۔
عمران خان نے کہا ہے کہ عدالت کو یقین دہانی کراتا ہوں کہ آئندہ ایسے معاملات میں انتہائی احتیاط سے کام لوں گا ۔کبھی ایسا بیان دیا نہ مستقبل میں دوں گا جو کسی عدالتی زیر التوامقدمے پر اثر انداز ہو۔ عدلیہ مخالف بدنتیی پر مبنی مہم چلانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔عدالتی کارروائی میں رکاوٹ ڈالنے یا انصاف کی راہ میں رکاوٹ کا سوچ بھی نہیں سکتا۔عدالت سے استدعا ہے کہ میری وضاحت کو منظور کیا جائے۔