امت رپورٹ:
سندھ کا محکمہ اوقاف اپنے زیر انتظام چلنے والے مزارات اور مساجد سے صرف چندہ لینے تک محدود ہوگیا۔ چندے کی پیٹیوں سے رقم نکال کر سوائے ملازمین کے تنخوائوں کے کوئی تعمیراتی یا مرمتی کام نہیں کرایا جاتا۔ زائرین کو درپیش مسائل حل نہیں کیے جارہے ہیں۔ جبکہ منگھوپیر درگاہ کے 350 سے زائد مگرمچھ بھوک کا شکار ہو رہے ہیں کیونکہ مہنگائی کی وجہ سے گوشت کافی مہنگا ہو چکا ہے جس کی وجہ سے مگر مچھوں کو پیٹ بھرکرکھانے کو گوشت نہیں ملتا ۔
درگاہ انتظامیہ بار بار کہہ چکی ہے کہ مستقل بنیاد پراس کا حل یہ ہے کہ مگرمچھوں کو سندھ وائلڈ لائف کے حوالے کردیا جائے تاکہ ان کا پیٹ بھر سکے۔ منگھوپیر درگاہ پر آنے والے زائرین کیلیے لنگر کا انتظام بھی ٹھپ ہو چکا ہے۔
واضح رہے کہ دس بارہ سال قبل تک ضلع ویسٹ میں بلوچستان کے بارڈر سے متقصل منگھوپیر کی درگاہ پر روزانہ ہزاروں زائرین کراچی سمیت بلوچستان اور اندرونِ سندھ سے آتے تھے۔ یہاں پر دودرجن گرم چشمے جلدی امراض کیلیے مفید تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس پانی میں گندھک شامل ہوتی ہے۔ اس طرح کوڑھ، خارش اورمختلف اقسام کے جلدی امراض میں مبتلا شہری یہاں ان چشموں میں نہانے آتے تھے۔ جبکہ منتیں مرادیں مانگنے والے اورمزار پرثواب کی نیت سے فاتحہ خوانی کرنے بھی لوگ آتے تھے۔
مزار پر ہر سال ’’شیدی میلہ‘‘ لگتا ہے۔ اس دوران مکرانی (شیدی) لوگوں کے کئی قبیلے کے لوگ بلوچستان اور ایران سے یہاں آتے ہیں۔ مزار کے اطراف گرم چشموں کے درمیان کوڑھ کے مرض کا سرکاری اسپتال بھی واقع ہے جہاں ایران، افغانستان، پاکستان، سری لنکا، بھارت، نیپال، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک سے کوڑھ کے مریض علاج کے لیے آتے تھے۔ نادرن بائی پاس بننے کے دوران جہاں پہاڑی سلسلہ توڑا گیا۔ وہیں واٹر ہائیڈرنٹ مافیا نے پنجے گاڑ دیئے۔ بڑے بڑے ہول والی بورنگ کرکے پانی حاصل کرنے لگے جس کی وجہ سے قدرتی چشموں کا پانی سوکھ گیا ہے۔ اب مزار کے احاطے میں مگر مچھوں کے تالاب کے قریب ایک چھوٹا سا تالاب باقی ہے۔ جہاں لوگوں سے نہانے کے پیسے لیے جاتے ہیں اور پانی کی بوتل فروخت کی جاتی ہے۔
مزار کے احاطے میں کالی چکنی مٹی زیادہ تر گرم چشموں کے قریب ہوتی تھی۔ اب ادھر ادھر سے لاکر پلاسٹک کی تھیلوں میں فروخت کی جاتی ہے۔ مگرمچھوں کے تالاب میں بڑے اور چھوٹے 350 سے زائد مگر مچھ موجود ہیں۔ تالاب اس قدر چھوٹا ہے کہ مگر مچھ ایک دوسرے پر چڑھے نظر آتے ہیں اور تالاب کے باہر مگر مچھ خشکی پر آنا چاہتے ہیں تو جگہ کم ہے۔ تالاب کی صفائی جھاڑیاں کاٹنا کچرا نکال کر پانی تبدیل کرنا سخت مشکل ہے۔ جبکہ تالاب کے اطراف لوہے کے جنگلے کی صورتحال خراب ہے کہ ان کو تبدیل نہیں کیا جاتا ہے اور خطرہ رہتا ہے کہ جنگلہ گر سکتا ہے۔ اگر جنگلہ گرا تو زائرین تالاب میں گرسکتے ہیں اور جانی نقصان کا خدشہ ہے۔ جبکہ محکمہ اوقاف کے لوگ مزارات اور زیر انتظام مساجد کے اندر چندے کے بکس بڑھاتے جارہے ہیں اور ہر مہینہ چندہ نکال کر لے جاتے ہیں۔
منگھوپیر مزار کے اندر عرس پر تین روز لنگر سرکاری ہوتا ہے۔ تاہم اب سارا سال نہ لنگر ہوتا ہے، نہ ٹھنڈا پانی ہوتا ہے۔ یہاں پر ٹھیکے لینے والے دکاندار واش روم، پارکنگ، پھول چادر، اگر بتی، تبرکات، کھانے پینے کی اشیا والے اور مزار انتظامیہ والے، زائرین سے مرضی سے خرچہ کراتے ہیں۔ مگرمچھ دیکھنے ہوں تو ٹکٹ، گرم چشمے پر نہانے کا ٹکٹ، مزار پر جانے سے قبل پھول، چادر، تبرکات خریدو، مہنگے کھانے، پانی اور مشروبات پر بھی خرچہ کراتے ہیں۔ بنارس اور کٹی پہاڑی سے آنے والی مین سڑک کھنڈر بن چکی ہے۔ گاڑیاں خراب ہوتی ہیں اور حادثات زیادہ ہوتے ہیں اور خراب گاڑی یا آہستہ چلانے والوں کو ناکہ لگا کر ڈکیت لوٹتے ہیں۔ وارداتیں جتنی شہر کے اندر ہوتی ہیں، یہاں پر اس سے زائد وارداتیں ہورہی ہیں۔ ان حالات میں زائرین کی تعداد بہت کم ہوچکی ہے۔ یہ مزار گرم چشموں اور مگر مچھوں سے مشہور ہے لیکن مگرمچھوں کا مسئلہ سنگین ہوتا جارہا ہے۔ مگر مچھوں کو روزانہ گوشت اور 70 سے زائد مگرمچھوں کے بچوں کے لیے قیمہ حاصل کرنا مشکل ہے۔ محکمہ اوقاف ایک پائو تک گوشت نہیں دیتا ہے۔ جبکہ روزانہ بڑے مگرمچھوں کیلیے 1400 کلوگرام گوشت چاہیے۔ کیونکہ ایک مگرمچھ کو کم از کم 5 کلو گوشت دینا چاہیئے اور بچوں کیلیے 140 کلوگرام قیمے کی ضرورت ہے کہ 70 بچے اگر روزانہ دو کلو قیمہ بھی کھائیں تو 140 کلو بنتا ہے۔ پہلے زائرین زیادہ آتے تھے کھانے پینے کی اشیا منتیں مرادیں پوری ہونے پر گوشت لے کر آتے تھے۔ ان کی تعداد کم ہوئی ہے اور مخیر حضرات بھی نہیں آتے ہیں اور یہ مسئلہ سنگین ہوتا جارہا ہے۔
مزار پر موجود مزار انتظامیہ کے ذمہ دار سجاد کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ محکمہ اوقات کو ہر صورتحال سے آگاہ کرتے رہتے ہیں تاہم کوئی شنوائی نہیں ہے۔ وہ بس ماہانہ چندہ نکال کرلے جاتے ہیں۔ سجاد نے علاقے میں گھر گھر جاکر لوگوں کو بولا کہ مگرمچھوں کو کھانے کو دو، مساجد سے بھی اعلان کراتے ہیں۔ ایک سماجی کارکن ہفتے میں ایک دو گائے دے جاتے ہیں۔ تاہم یہ گوشت، آٹے میں نمک کے برابر ہوتا ہے۔
’’امت‘‘ نے محکمہ اوقات سندھ کے مزارات اور مساجد کے انچارج مفتی منیر احمد طارق سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ، مزارات اور مساجد والے جو مسائل لکھ کر بھیجتے ہیں وہ صوبائی وزیر اور سیکریٹری کو بھیج دیتے ہیں۔ اب مگرمچھوں کے حوالے سے ٹھوس اورمستقل بنیادوں پر مسئلہ حل کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ کوشش کر رہے ہیں کہ ان بے زبانوں کے کھانے کا بندوبست کرسکیں یا ان کو محکمہ وائلڈ لائف کے حوالے کردیں۔