امت رپورٹ:
افریقی جنگلات میں ہاتھیوں پر تحقیق کرنے والے ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ روئے ارض پر دنیا کا سب سے بڑا ممالیہ یعنی ہاتھی نہ صرف بہترین مواصلات کارہے بلکہ ہاتھیوں کی یادداشت اور سمجھنے کی صلاحیت انسانوں سے بھی بہتر ثابت ہوئی ہے، جس کو ماہرین نے شعور کا نام دیا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ایک بالغ ہاتھی کسی بھی گروہ میں شامل کسی بھی ہاتھی کو ایک بار پہچان لے تو اسی ہاتھی یا ہتھنی کو اگلی بار 200 سے زیادہ ہاتھیوں کے غول میں بھی با آسانی پہچان لیتا ہے۔ دو سے تین کلومیٹر کے دائرہ میں موجود کوئی بھی ہاتھی کسی دوسرے ہاتھی کو پیغام دینے کیلیے انفرا سائونڈز کا استعمال کرتے ہیں۔ سولہ ہرٹز سے کم والی ا س فریکوئنسی کو انسان سن نہیں سکتا۔ لیکن کوئی بھی دوسرا ہاتھی اس مخصوص فریکوئنسی کو کم از کم دو اور زیادہ سے زیادہ تین کلومیٹر کے دائرہ میں صاف سن سکتا ہے اور اس کا جواب بھی اسی فریکوئنسی میں دے سکتا ہے۔ ہاتھیوں کا گروہ چھوٹا یا بڑا بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کی قیادت سینئر ہتھنی کرتی ہے اورکسی بھی خطرے کو سمجھنے، اس کا تدارک کرنے سمیت پانی یا سبزہ کی تلاش کا کام بھی بخوبی کر سکتی ہے۔ ہتھنی اپنی قیادت میں سفر کرنے والے کسی بھی گروہ کو سینکڑوں کلومیٹر کی دوری پر پانی یا سبزہ کی موجودگی والے علاقہ میں بھی با آسانی و بحفاظت پہنچا سکتی ہے۔
محققین کے مطابق جب ہاتھیوں کے مختلف گروہ ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں تو سونڈ اٹھا کر سلام پیام کرتے ہیں۔ یعنی مخصوص پیغام چنگھاڑ کی کیفیت میں بھیجتے ہیں۔ اگر مخالف گروہ موافق یا دوست ہو تو اس کی جانب سے بھی جواب دیا جاتا ہے اور یہ دوستی کی صورت میں قریب آجاتے ہیں اور ایک دوسرے کے جسم اور سونڈ کو چھوتے اور سونگھتے ہیں۔ لیکن اگر مخالف گروہ دوستانہ رویہ کا حامل یا ماضی میں نہ ملا ہو تو ممکن ہے کہ یہ باہم قریب نہیں آتے اورایک دوسرے سے مخالف سمت میں چنگھاڑتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ ہاتھیوں پر تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ہاتھی انسانوں اور مختلف جانوروں کی آوازوں کی مکمل پہچان اور شناخت بھی رکھتے ہیں۔ جنگلی قبائلیوں کی آواز سن کر ہاتھی مضطرب ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کو اپنے ڈی این اے کی مدد سے معلوم ہوجاتاہے کہ ’مسائی‘ یا ’زولو‘ یا کسی اور قبائلی گروہ کے شکاری ان کا شکار کرسکتے ہیں یا ان کے بچوں کو پکڑنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ لیکن خواتین اور بچوں کی آوازوں کو سننے والے ہاتھیوں کی جانب سے خدشات اور خطرات کا بہت کم اظہار کیا گیا۔ اگرچہ ہاتھیوں کو ایک عظیم الجثہ اور شریف جنگلی جانور سمجھا جاتا ہے، لیکن جب یہ بگڑتے ہیں تو ان کو سنبھالنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ جبکہ ہاتھیوں کا باہم تنازع کسی ایک فریق کی موت پر منتج ہوتا ہے۔ ہاتھی افریقا اور ایشیائی خطہ میں موجودسب سے بڑے زمینی ممالیہ ہیں۔ ہاتھیوں کے پاؤں حیرت انگیز طور پر باہم مواصلات کا کام بھی انجام دیتے ہیں۔
محققین نے بتایا ہے کہ ہاتھی کم و بیش 30 کلومیٹر کی دوری سے بھی کم ترین فریکوئنسی کی چاپ محسوس کر سکتے ہیں۔ یہ آوازیں زمین کی سطح پر ارتعاشی کیفیت پیدا کرتی ہیں جس کو ہاتھی اپنے پیروں کی مدد سے محسوس کرسکتے ہیں۔ کیونکہ قدرت نے ہاتھی کے پیر میں ایسے مواصلاتی سینسرز لگائے ہیں جو اس کو دیگر جانوروں سے ممتاز کرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہاتھی اپنے حساس پیروں سے کان اور اپنے پیچیدہ دماغ، حتیٰ کہ اپنی جسامت کیساتھ جنگلات کے موسم اور ماحول سے بالکل ہم آہنگ پیدا کئے گئے ہیں۔ ایک دن میں اگر ہاتھی مناسب رفتار سے سفرکرتے ہیں تو یہ سو کلومیٹر تک کا سفر با آسانی طے کرسکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ہاتھی دوردراز کا سفر کرنے کیلئے اس لئے بھی لائق ہوتے ہیں کہ انکے بھاری بھرکم پیر تلے چربی کی موٹی تہیں موجود ہوتی ہے، جو ان کے پیروں کو دبائوپڑنے پر چپٹی کیفیت میں لے آتی ہیں۔ طبی جانچ میں اس بات کا علم ہوا ہے کہ ہاتھی کے پیر میں موجود ان چربی کے تہوں کے اندر بڑے سائز کی ایڑیاں موجود ہوتی ہیں، جو دبائو کو ان کے جسم کے دیگر اعضا تک منتقل کردیتی ہیں۔ اسی لئے ہاتھی کے پیر تھکتے نہیں ہیں اور ٹنوں وزن کا حامل یہ جانور سینکڑوں کلومیٹر دوری کا سفر با آسانی طے کرلیتا ہے۔ یہ شاندار ممالیہ نا صرف اپنے مواصلاتی رابطوں کوسمجھتا ہے بلکہ ایک مطالعہ سے علم ہوا ہے کہ ہاتھی انسانی زبانوں اور لہجوں میں فرق بھی محسوس کر سکتے ہیں۔ یہ قدرتی صلاحیت ان ہاتھیوں کو خاص طور پر اس بات کا اندازہ لگانے میں مدد دیتی ہے کہ کوئی انسان ان کیلیے کتنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
سائونڈ سسٹم کی مدد سے جب ’مسائی‘ اور’کمبا‘ قبیلے کے لوگوں کی آوازیں ہاتھیوں کو سنوائی گئیں تو حیران کن بات یہ تھی کہ ہاتھیوں نے مسائی قبائلی مردوں کی آوازوں پر زیادہ سخت رد عمل ظاہر کیا۔ کیونکہ مسائی قبیلہ کے مرد ماضی میں کئی بار ہاتھیوں کا شکار کرچکے تھے۔ لیکن اسی تحقیق میں جب انہی ہاتھیوں کے غول کو مسائی خواتین یا بچوں کی آوازیں سنائی گئیں تو انہوں نے اس پر کم محتاط رد عمل کا اظہار کیا۔ ہاتھیوں کے اندر محبت کا عنصر بھی پایا جاتا ہے اور اگر کسی غول میں شامل کوئی ہاتھی مر جائے تو غول افسردہ ہوجاتا ہے اور کم و بیش تین دنوں تک اسی مقام پر تمام ہاتھی موجود رہتے ہیں۔ وہ چنگھاڑ کر دکھ کی کیفیت کا اظہار کرتے ہیں اور بار بار آکر اس مقام پر موجود مردہ ہاتھی کے جسم کو سونڈ سے چھوتے ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ ہاتھی اس مقام کو ساتھی کی موت کے حوالہ سے یاد رکھتے ہیں۔