نجم الحسن عارف:
ریلوے ٹریک کی بحالی میں چالیس ارب روپے تک لاگت آسکتی ہے۔ کراچی اور پاکستان کے دیگر بڑے شہروں کے درمیان منقطع ہونے والے ریل رابطوں کی بحالی میں ایک سے ڈیڑھ ماہ لگنے کا امکان ہے۔ کیونکہ سندھ میں کئی جگہ پر اب بھی ٹریک پر پانی کھڑا ہے۔ جبکہ کوئٹہ کو پاکستان کے دوسرے بڑے شہروں سے ملانے کے لیے بھی کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔ کیونکہ برطانوی دور کے ریلوے پل کو نئے سرے سے تعمیر کرنے میں کافی وقت لگے گا۔ واضح رہے کہ ریلوے حکام نے اعلان کیا تھا کہ 15 ستمبر تک ریلوے کا آپریشن بحال ہو جائے گا۔ اس حوالے سے ریلوے کے حکام سے بات کی گئی تو انہوں نے یہ تو تصدیق کی کہ ریلوے ٹریک اور پلوں کو پہنچنے والے نقصان کے ازالے اور نئے سرے سے ٹریک اور پلوں کی تعمیر و مرمت پر 35 سے 40 ارب روپے کی لاگت آسکتی ہے۔ لیکن ان کا دعویٰ تھا کہ ٹریک کی بحالی دو ہفتوں میں مکمل ہو جائے گی۔
ریلوے پریم یونین کے مرکزی صدر شیخ محمد انور کا بھی کہنا ہے کہ ریلوے ٹریک اور پلوں کی مرمت پر بہت زیادہ رقم لگے گی۔ ان کے بقول چونکہ ریلوے حکام کے فیصلے نرالے ہوتے ہیں۔ اس لیے آج تک سمجھ نہیں آسکی ہے کہ 26 اگست کو ملک کے چند علاقوں میں ریل ٹریک کے سیلاب کی زد میں آنے کے بعد ملک بھر میں ریلوے کا آپریشن کیوں معطل کر دیا گیا۔ یہ نادر شاہی حکم کس نے اور کیوں دیا تھا۔ آج تک اس بارے میں حکومت نے بھی ریلوے سے نہیں پوچھا کہ عوام سے سفر کی سہولت کیوں چھین لی گئی۔ صرف یہی نہیں۔ بلکہ برطانوی دور کا پل اس سیلاب میں بہہ گیا۔ ریلوے حکام میں سے کسی نے اس کی تحقیقات نہیں کرائی ہیں کہ ہر تین ماہ بعد ان پلوں کی مرمت کرنے والے چیف انجینئر، یا ان کے شعبے کے کسی افسر سے نہیں پوچھا گیا کہ اس پل کے بارے میں آخری رپورٹ میں ان کے اسٹاف نے آنے والے مون سون کو مدنظر رکھتے ہوئے پل کی حالت کیا بتائی تھی۔
ایک سوال پر صدر پریم یونین نے کہا کہ ’’پل گر گیا۔ بہت نقصان ہوا۔ مگر اس سے بڑا نقصان یہ ہے کہ کسی نے چیف انجینئر برجز سے پوچھا نہ سارا ریل آپریشن بند کر دینے والے سے پوچھا۔ مزید یہ کہ حکومت جس نے ریلوے سے پوچھنا تھا، اس نے بھی نہیں چپ سادھ رکھی ہے۔ قاعدے کے مطابق ہر پل کی مرمت کے لیے تین ماہ بعد شیڈول بنا ہوا ہے۔ اگر تین ماہ پہلے کسی نے بلوچستان کے ٹوٹ کر گرنے والے پل کی مرمت کی تھی اور سب اچھا کی رپورٹ دی تھی، تو وہ کون ہے۔ اس کا لازماً احتساب ہونا چاہیے۔
اہم بات یہ بھی ہے کہ ریلوے حکام اب تک ٹریک کی متاثرہ لمبائی کے بارے میں کوئی واضح بات کرنے پر تیار ہیں نہ اس تخمینہ کے بارے میں چیزیں وضاحت کے ساتھ سامنے لانے کو تیار ہیں اور نہ ہی یہ بتا سکتے ہیں کہ 35 سے 40 ارب روپے کی خطیر رقم کا تخمینہ کس قدر درست اور کس قدر محض اندازوں کی بنیاد پر ہے۔ اس سلسلے میں بعض ذرائع کی یہ بات اہم لگتی ہے کہ جس ریلوے کا کل بجٹ اب 40/35 ارب روپے سے کم ہوکر محض 13 ارب کر دیا گیا تھا اور گزشتہ ہفتے تک تو وہ بھی ریلوے کو منتقل نہیں کیا گیا تھا۔ اب ریلوے کو 35 سے 40 ارب روپے کی فراہمی کہاں سے اور کون کرے گا‘‘۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ وفاقی وزیر ریلوے کم بجٹ کے اعلان پر خوش نہیں ہیں۔ تاہم 26 اگست سے ریلوے کے اہم ترین ٹریک پر آپریشن بند کیے جانے کے بعد خود وزیر ریلوے بھی پہلی مرتبہ متاثر علاقوں میں دو تین دن پہلے ہی نکلے ہیں۔ جس سے ریلوے کے بارے میں حکومتی ترجیح اور اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
’’امت‘‘ نے ریلوے کے ایڈیشنل جنرل منیجر انفرا اسٹرکچر ارشد سلام خٹک سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ٹریک پر سندھ کے علاقے میں اب بھی پانی کھڑا ہے اور بہت سی جگہوں پر ٹریک پوری طرح بیٹھ گیا ہے۔ اس لیے اس ٹریک پر سے مسافر ٹرینوں کو گزارنا ’’رسکی‘‘ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ جب تک ٹریک کو مسافروں کی حفاظت اور راحت کے مطابق نئے سرے سے تیار نہیں کر لیا جاتا۔ ٹرین آپریشن شروع نہیں کیا جا سکتا۔ یہ دریافت کرنے پر کہ کل کتنے کلو میٹر ریلوے ٹریک سیلاب سے متاثر ہوا ہے اور کتنے مقامات پر ہوا ہے، تو انہوں نے کہا ’’بھریا روڈ سے پڈعیدن تک کا ایک کلو میٹر کا ریل ٹریک بری طرح تباہ ہوا ہے۔ اسی طرح نواب شاہ، دادو، روہڑی اور میر پور خاص ہر جگہ سیلاب کے اثرات ایسے ہوئے ہیں کہ ریل ٹریک پر مسافر ٹرین تو بالکل نہیں چل سکتی‘‘۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا ’’نواب شاہ کے پاس ریلوے ٹریک کے پاس بند بھی بنانا شروع کر دیا ہے۔ لیکن اس کی اونچائی زیادہ نہیں ہے۔ دراصل 500 فیصد سے زائد بارش کا کسی کو اندازہ ہی نہیں تھا۔ اس لیے اس طرح کے سیلاب کے لیے ریلوے تیار تھا نہ متعلقہ حکومتیں۔ نتیجہ بڑے نقصان کی صورت سامنے آیا۔ اب بھی ریلوے ٹریک پر جگہ جگہ پانی کھڑا ہے۔ اس صورت حال میں ٹرین انجن کو کھڑے پانی والے ٹریک سے گزار کر انجنوں کا نقصان نہیں کرنا چاہیے۔ ٹریک کی بحالی کا کام پانی اترنے اور ٹریک خشک ہونے کے بعد ہی شروع ہو سکے گا۔ اس وقت ہمارے سینکڑوں کارکنان ریلوے ٹریک کی بہتری کے لیے کام کر رہے ہیں۔ مگر اس کے لیے وقت لگے گا‘‘۔
ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’’امید ہے کہ دو ہفتوں میں ریلوے ٹریک کی مرمت اور بحالی کا کام مکمل ہو جائے گا۔ اس کے بعد ہی مسافر ٹرینیں چل سکیں گی‘‘۔ اے جی ایم انفرااسٹرکچر ارشد سلام خٹک نے ایک اور سوال پر کہا ’’بلاشبہ اس وقت ایم ایل ون، ایم ایل ٹو اورایم ایل تھری پر ریل نہیں چل رہی۔ لیکن ہم نے ان برے حالات میں بھی اکا دکا مال گاڑیوں کو سامان کے ساتھ کراچی روہڑی کے درمیان بھی چلا دیا ہے۔ یہ بھی ایک مشکل کام تھا۔ تقریباً ایک کلو میٹر کا یہ فاصلہ مال گاڑی پہلے انجن کے دھکے سے چلتی رہتی ہے اور اس کے بعد دوسری جانب ایک انجن اس کے آگے لگا کر اسے پانی والے ریل ٹریک سے انجن کو دور رکھ کر کھینچ لیا جاتا ہے۔ مگر اس طرح مسافر گاڑیوں کے لیے رسک نہیں لیا جا سکتا۔ اس لیے ہم انتظار کر رہے ہیں کہ ٹریک مکمل مرمت ہو اور اس کی بحالی کے بعد ہی مسافر ٹرینوں کو ٹریک پر لاسکیں گے۔
مزید ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’’سیلاب سے ریلوے کو غیر معمولی نقصان پہنچا ہے۔ تاہم 35 سے 40 ارب روپے سے اس کی بحالی ہو جائے گی۔ اسی سے ان پلوں کی مرمت و تعمیر مکمل ہو گی، جنہیں جزوی یا کلی نقصان پہنچا ہے۔ اگر مین لائن ون کا ایک ہی جگہ پر سے اور ایک کلو میٹر کا ٹریک بھی سیلاب سے تباہ ہوتا تو ریل آپریشن جاری رکھنا ممکن تھا۔ لیکن یہ کئی جگہوں سے متاثر ہوا ہے اور اس پر کئی کئی فٹ پانی کئی ہفتے کھڑا رہا ہے اور اب بھی پانی کھڑا ہے۔ اگرچہ اب تھوڑے حصے پر کم پانی کھڑا ہے۔ لیکن پانی کی وجہ سے ٹریک کا نقصان بہت زیادہ ہو چکا ہے‘‘۔
واضح رہے کہ اس سے پہلے ریلوے حکام نے اعلان کیا تھا کہ 15 ستمبر تک ریلوے کا آپریشن بحال ہو جائے گا مگر اب یہ حکام کے اپنے بقول اگلے ماہ کے شروع تک معاملہ لٹک سکتا ہے جبکہ ریلوے کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ جس رفتار سے اس وقت کام ہورہا ہے ریل ٹریک کی بحالی میں ایک سے ڈیڑھ دو ماہ لگ سکتا ہے۔