نجم الحسن عارف:
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد اور عمران خان کے درمیان تعلقات میں سرد مہری کی وجہ اہم پی ٹی آئی رہنمائوں میں شیخ رشید کیلئے اظہارِ نا پسندیدگی تھی۔ تاہم اب بدلتے حالات میں شیخ رشید اور عمران خان میں قربتیں دوبارہ بڑھنے لگی ہیں۔ ذرائع کے مطابق عام انتخابات کا اعلان ہونے پر دونوں رہنمائوں کے تعلقات میں زیادہ گرم جوشی آ سکتی ہے۔ ذرائع کے مطابق عمران خان کے اقتدار کے آخری مہینوں میں شیخ رشید احمد اور عمران خان کے تعلقات میں فرق آیا تھا۔ لیکن بعد ازاں حالات ایسے غیر معمولی طور پر تبدیل ہوئے کہ شیخ رشید نے پچھلے الیکشن کو اپنا آخری الیکشن کہنا بھی چھوڑ دیا۔ اب وہ عمران خان کے ساتھ جڑ جانے کو اپنی سیاسی و انتخابی جیت کے لیے مفید سمجھتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اس امکان کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ عمران خان کے بیک ڈور رابطوں کی بحالی میں شیخ رشید احمد کا کوئی کردار رہا ہو۔ ان ذرائع کے مطابق شیخ رشید احمد پی ٹی آئی کا باضابطہ حصہ نہ ہونے کے باوجود عمران خان کے بہت قریب رہے ہیں۔ اسی وجہ سے جہاں پی ٹی آئی کے بعض رہنمائوں کو یہ اچھا نہیں لگتا، وہیں عمران خان کو یہ بات پسند ہے کہ ایک ایسا فرد بھی ساتھ ہے جس کا پنڈی سے تعلق ہے اور پارٹی سے باہر کا ہونے کے باوجود عمران خان کے حق میں بے دھڑک بات کرتا ہے۔
ذرائع کے مطابق شیخ رشید کے بارے میں پی ٹی آئی میں اس وقت بعض رہنمائوں کا گلہ اور ناراضگی بڑھنے کا سبب تھا جب شیخ رشید نے عمران حکومت ختم ہونے کے بعد اسلام آباد کے لیے لانگ مارچ 25 مئی کے اعلان کے بعد ایسی تقریریں کیں جو شعلہ بیانی کے زمرے میں آتی تھیں۔ اس وجہ سے پی ڈی ایم اور اس کے اتحادیوں کی حکومت خصوصاً وزارت داخلہ کو شیخ رشید کے شعلہ بیانی والے جملوں کی بنیاد پر لانگ مارچ سے سختی سے نمٹنے کا جواز بھی مل گیا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ شیخ رشید احمد نے حالات کی دیوار پر لکھی تحریر کو اچھی طرح سمجھ لیا کہ اب ان کی بڑھاپے کو چھو چکی سیاست کے لیے عمران خان کی مقبولیت ایک اہم سہارا ہو سکتی ہے۔ نیز پی پی پی، نواز لیگ وغیرہ کے بارے میں جو سخت ترین خیالات وہ رکھتے ہیں۔ اور جس طرح انہیں للکارنا چاہتے ہیں۔ وہ صرف عمران خان کی مدد سے ممکن ہے۔ اس لیے وہ پوری طرح یکسو ہو کر عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوئے بغیر اپنی سیاست کرتے رہیں گے۔
ذرائع نے شیخ رشید اور عمران خان کے درمیان ایک مشترک پہلو یہ بھی بتایا کہ دونوں اپنی تقریروں میں مخالفین کو رگیدتے اور ان کے الٹے سیدھے نام رکھتے ہیں۔ اس لیے اب دونوں کا سیاست کے میدان میں کم از کم موجودہ فیز میں اکٹھے ہی آگے بڑھنے اور مخالفین سے لڑنے کا منصوبہ ہے۔ ذرائع کے مطابق حالیہ چند ہفتوں سے عمران خان کے مقتدر حلقوں سے دوبارہ رابطہ ہونے کی جو اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔ ان میں اگر شیخ رشید کا کوئی چھوٹا موٹا کردار نہیں بھی ہے، تو کم از کم وہ اچھی طرح آگاہ ضرور ہیں اور پی ٹی آئی قیادت کے ساتھ اس سلسلے میں کارڈز کا تبادلہ ضرور کرتے ہیں۔ اس کی تازہ مثال دونوں دو روز قبل بنی گالا میں حالات کا تجزیہ کرنا اور مقتدر حلقوں کی طرف سے حالیہ رابطوں کے نتیجے میں امکانی مثبت جواب یا مثبت نتائج کا ایک ایک کر کے سامنے آنے کا امکان ہونا ہے۔
ان ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان اور شیخ رشید کا مقتدر حلقوں کے ساتھ رابطوں میں ایک صفحے پر ہونے کی وجہ سے ہے کہ دونوں پرامید ہیں کہ آنے والے دو ہفتے ان کوششوں اور رابطوں کے نتائج کے حوالے سے اہم ہوں گے۔ ان ذرائع نے دعویٰ کیا کہ دونوں کے لہجے میں حالیہ چند دنوں امید کا تاثر بڑھا ہے۔ ذرائع کے مطابق البتہ یہ کہنا مشکل ہے کہ پی ٹی آئی کے دیگر مرکزی رہنما بھی شیخ رشید کو اپنے اتنا ہی قریب رکھتے ہیں یا سمجھتے ہیں جتنا کہ وہ عمران خان کے ہو چکے ہیں۔ ان ذرائع کے مطابق عمران خان اپنی پارٹی کے باہر کے لوگوں میں جن شخصیات کو اپنی جاری سیاسی سرگرمیوں اور جدوجہد کے لیے اہم سمجھتے ہیں، شیخ رشید ان میں سرفہرست ہیں کہ وہ ایک سیاسی جوڑ توڑ کی تاریخ بھی رکھتے ہیں۔