تحریر:۔ضیاءچترالی
گنبد خضرا وہ گنبد ہے، جو پوری دنیا کے مسلمانوں کے دلوں میں بستا ہے۔ کوئی مسلمان ایسا نہیں جس کے دل میں گنبد خضرا کی زیارت کی خواہش انگڑائی نہ لیتی ہو۔ قبر اطہر پر یہ گنبد مملوک سلطان سیف الدین قلاوون کے دور 1279ءبمطابق 678ھ میں تعمیر کروایا گیا۔ اصل ساخت میں لکڑی استعمال کی گئی تھی۔ ہر نئے حکمران کی طرف سے بحالی کے کاموں کے دوران اسے مختلف رنگ کئے جاتے رہے۔ 1481ءمیں مسجد نبوی میں آگ لگی، جس کے نتیجے میں گنبد بھی جل گیا۔ گنبد کی دوباہ تعمیر کا کام مملوک سلطان قائتبائی نے شروع کیا۔ اس مرتبہ ایسے حادثات سے بچاﺅ کےلئے لکڑی کے بجائے اینٹوں کا ڈھانچہ بنایا گیا اور لکڑی کے گنبد کی حفاظت کےلئے سیسہ کا استعمال کیا گیا۔ سولہویں صدی میں عثمانی سلطان سلیمان اعظم نے گنبد کو سیسے کی چادروں کے ساتھ مڑھوایا، پھر 1818ءمیں عثمانی سلطان محمود بن عبد الحمیدؒ نے اسے سبز رنگ کروایا۔ اس کے بعد سے یہ ایسا ہی ہے۔ اسی سبز رنگ کی وجہ سے اسے ”گنبد خضرا“ اور ”القبة الخضرا“ (Green Dome) کہا جاتا ہے۔ یہ گنبد فن تعمیر کا ایک شاہکار ہونے کے ساتھ مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن ہے۔ 1925ءمیں جب آل سعود نے مدینہ منورہ کو فتح کیا تو مقامی علما کے حکم پر جنت البقیع میں قبور پر بنے تمام گنبد گرا دیئے گئے۔ کیونکہ شرعاً قبروں پر گنبد وغیرہ بنانا جائز نہیں ہے۔ پھر انہوں نے گنبد خضراءکے بھی انہدام کا ارادہ کیا۔ جس سے دنیا بھر کے مسلمانوں میں بے چینی پھیل گئی۔ مختلف ممالک کے علما نے انہیں منع کیا تو انہوں نے مناظرے کا چیلنج دیا۔ اس دوران ہندوستان سے بھی علما کا ایک وفد سعودی عرب پہنچا۔ شامی، عراقی اور ترک علما پہلے سے موجود تھے۔ تمام علما نے مناظرے کیلئے ہندوستانی وفد کے رکن علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کو آگے کردیا۔ انہوں نے ناقابل تردید دلائل سے عرب علماءکوقائل کرلیا کہ گنبد خضراءکو نہیں گرایا جاسکتا۔یوں گنبد خضراءکے انہدام کا ارادہ ملتوی کردیا گیا۔ خدا کے محبوب نبی آخر الزماں محمد مصطفیٰ کے روضہ مبارک پر قائم اس گنبد خضرا کے نیچے اور روضہ شریف کے اندر کیا ہے، اس کے متعلق کئی کہانیاں مشہور ہیں۔ انٹرنیٹ پر کئی جعلی تصاویر گردش میں رہتی ہیں۔ انواع و اقسام کی قبروں کو قبر رسول کے نام سے سوشل میڈیا پر شیئر کیا جاتا ہے۔ کبھی کسی آدمی کی تصویر اس دعوے کے ساتھ شیئر کی جاتی ہے کہ یہ روضہ رسول کے خادم ہیں اور قبر مبارک کی صفائی کی خدمت پر مامور ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے سب دعوے بے بنیاد اور مصنوعی ہیں۔ حقیقت کیا ہے؟ روضہ شریف کے اندر کیا ہے؟ کیا کوئی قبر مبارک تک رسائی رکھتا ہے؟ ان سب سوالوں کے جوابات کچھ عرصہ قبل سعودی حکومت نے باضابطہ طور پر دیئے ہیں اور اندرونی ہال کی تصاویر بھی شیئر کی گئی ہیں، جن سے سب خرافات اور بناوٹی باتوں کا قلع قمع ہوتا ہے۔ آنحضرت کا وصال ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے حجرہ مبارک میں ہوا تھا اور وہیں آپ کی تدفین ہوئی۔ اس کے بعد پھر حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ بھی وہاں مدفون ہوئے۔ اس طرح روضہ شریف کے اندر اس وقت تین قبریں ہیں۔ اس طرح کوئی بھی ایسی تصویر جس میں صرف ایک قبر ہو، وہ کسی صورت رسول اقدس کے مرقد شریف کی نہیں ہو سکتی اور ویسے بھی خدا کا شکر کہ آپ کی قبر مبارک کی کوئی تصویر دنیا میں موجود نہیں ہے۔ اس لیے کہ گزشتہ ساڑھے پانچ صدیوں میں کوئی شخص آپ کی قبر مبارک تک نہیں جا سکا ہے۔ وہ حجرہ شریف جس میں آپ اور آپ کے دو اصحابؓ کی قبریں ہیں، اس کے گرد ایک چار دیواری ہے، اس چار دیواری سے متصل ایک اور دیوار ہے، جو پانچ دیواروں پر مشتمل ہے۔ یہ پانچ کونوں والی دیوار حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے بنوائی تھی اور اس کے پانچ کونے رکھنے کا مقصد اسے خانہ کعبہ کی مشابہت سے بچانا تھا۔ اس پنج دیواری کے گرد ایک اور پانچ دیواروں والی فصیل ہے۔ اس پانچ کونوں والی فصیل پر ایک بڑا سا پردہ یا غلاف ڈالا گیا ہے۔ یہ سب دیواریں بغیر دروازے کے ہیں، لہٰذا کسی کے ان دیواروں کے اندر جانے کا کوئی امکان ہی نہیں ہے۔ روضہ رسول کی اندر سے زیارت کرنے والے بھی اس پانچ کونوں والی دیوار پر پڑے پردے تک ہی جا پاتے ہیں۔ قبر مبارک کی صفائی کے متعلق بھی بہت سی کہانیاں گردش کرتی رہتی ہیں۔ یہ بھی سو دس فیصد جھوٹ ہیں، کیوں کہ اندرونی دیواروں میں دروازہ نہ ہونے کی وجہ سے قبر مبارک تک رسائی کا کوئی امکان ہی نہیں ہے۔ تاہم ان دیواروں کے ساتھ اور جالیوں کے پیچھے کی صفائی کی جاتی ہے، لیکن اس کےلئے کوئی وقت متعین نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی شخص مقرر ہوتا ہے، بلکہ ایک جماعت کی صورت میں کچھ لوگ آتے ہیں اور کسی بھی خادم کو پکڑکر ان جالیوں کے متصل پیچھے اور دیوار کے ساتھ صفائی کروائی جاتی ہے، جتنی مٹی وغیرہ جمع ہو، اسے ایک لفافے میں ڈال کے وہ ساتھ لے جاتے ہیں، تاکہ لوگ اس کو حاصل کرنے کے فتنے میں مبتلا نہ ہوں۔ روضہ رسول پر سلام عرض کرنے والے عام زائرین جب سنہری جالیوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو جالیوں کے سوراخوں سے انہیں بس وہ پردہ ہی نظر آ سکتا ہے، جو حجرہ شریف کی پنج دیواری پر پڑا ہوا ہے۔ اس طرح سلام پیش کرنے والے زائرین اور آنحضرت کی قبر اطہر کے درمیان گو کہ چند گز کا فاصلہ ہوتا ہے، لیکن درمیان میں کل چار دیواریں حائل ہوتی ہیں۔ ایک سنہری جالیوں والی دیوار، دوسری پانچ کونوں والی دیوار، تیسری ایک اور پنج دیواری، اور چوتھی وہ چار دیواری جو کہ اصل حجرے کی دیوار تھی۔ گزشتہ تیرہ سو سال سے اس پنج دیواری حجرے کے اندر کوئی نہیں جا سکا ہے، سوائے دو مواقع کے۔ ایک بار 91 ہجری میں حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے دور میں ان کا غلام اور دوسری بار 881 ہجری میں معروف مورخ علامہ السمہودیؒ کے بیان کے مطابق وہ خود۔ مسجد نبوی میں قبلہ کا رخ جنوب کی جانب ہے۔ سرور کونین کا روضہ مبارک ایک بڑے ہال کمرے میں ہے۔ بڑے ہال کمرے کے اندر جانے کا دروازہ مشرقی جانب ہے، یعنی جنت البقیع کی سمت۔ یہ دروازہ صرف خاص شخصیات کے لیے کھولا جاتا ہے۔ اس دروازے سے اندر داخل ہوں تو بائیں جانب حضرت فاطمة الزہرہؓ کی محراب ہے۔ اس کے پیچھے ان کی چارپائی (سریر) ہے۔ العربیہ ویب سائٹ نے محقق محی الدین الہاشمی کے حوالے سے بتایا کہ ہال کمرے میں روضہ مبارک کی طرف جائیں تو سبز غلاف سے ڈھکی ہوئی ایک دیوار نظر آتی ہے۔ 1406 ہجری میں شاہ فہد کے دور میں اس غلاف کو تبدیل کیا گیا۔ اس سے قبل ڈھانپا جانے والا پردہ 1370 ہجری میں شاہ عبد العزیز آل سعود کے زمانے میں تیار کیا گیا تھا۔ مذکورہ دیوار 881 ہجری میں اس دیوار کے اطراف تعمیر کی گئی، جو 91 ہجری میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے تعمیر کی تھی۔ اس بند دیوار میں کوئی دروازہ نہیں ہے۔ قبلے کی سمت اس کی لمبائی 8 میٹر، مشرق اور مغرب کی سمت 6.5 میٹر اور شمال کی جانب دونوں دیواروں کی لمبائی ملا کر 14 میٹر ہے۔ 91 ہجری سے 881 ہجری تک تقریباً آٹھ صدیاں کوئی شخص آپ کی قبر مبارک کو نہیں دیکھ پایا تھا۔ اس کے بعد 881 ہجری میں حجرہ مبارک کی دیواروں کے بوسیدہ ہو جانے کے باعث ان کی تعمیر نو کرنا پڑی۔ اس وقت نامور مورخ اور فقیہ علّامہ نور الدین ابو الحسن السمہودیؒ مدینہ منورہ میں موجود تھے، جنہیں ان دیواروں کی تعمیر نو کے کام میں حصہ لینے کی سعادت حاصل ہوئی۔ (ہمارے بچپن کے دوست منیب حسین کے مطابق علامہ سہمودی مدینہ طیبہ کے مفتی تھے۔ منیب حسین عرب امور کے ماہر اور محقق عالم دین ہیں) علامہ سمہودیؒ لکھتے ہیں کہ 14 شعبان 881ھ کو پانچ دیواری مکمل طور پر ڈھا دی گئی۔ دیکھا تو اندرونی چار دیواری میں بھی دراڑیں پڑی ہوئی تھیں۔ چنانچہ وہ بھی ڈھا دی گئی۔ ہماری آنکھوں کے سامنے اب مقدس حجرہ تھا۔ مجھے داخلے کی سعادت ملی۔ میں شمالی سمت سے داخل ہوا۔ خوشبو کی ایسی لپٹ آئی جو زندگی میں کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ میں نے رسول اقدس اور آپ کے دونوں خلفائے راشدینؓ کی خدمت میں ادب سے سلام پیش کیا۔ مقدس حجرہ مربع شکل کا تھا۔ اس کی چار دیواری سیاہ رنگ کے پتھروں سے بنی تھی، جیسے خانہ¿ کعبہ کی دیواروں میں استعمال ہوئے ہیں۔ چار دیواری میں کوئی دروازہ نہ تھا۔ میری پوری توجہ تین قبروں پر مرکوز تھی۔ تینوں سطح زمین کے تقریباً برابر تھیں۔ صرف ایک جگہ ذرا سا اُبھار تھا۔ یہ شاید حضرت عمر فاروقؓ کی قبر مبارک تھی۔ مقدس قبروں پر عام سی مٹی پڑی تھی۔ اس بات کو پانچ صدیاں بیت چکی ہیں، جن کے دوران کوئی انسان ان مہر بند اور مستحکم دیواروں کے اندر داخل نہیں ہوا۔ السمہودی نے اپنی کتاب میں حجرہ¿ نبوی کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ ”اس کا فرش سرخ رنگ کی ریت پر مبنی ہے۔ حجرہ¿ نبوی کا فرش مسجد نبوی کے فرش سے تقریباً 60 سینٹی میٹر نیچے ہے۔ اس دوران حجرے پر موجود چھت کو ختم کر کے اس کی جگہ ٹیک کی لکڑی کی چھت نصب کی گئی، جو دیکھنے میں حجرے پر لگی مربع جالیوں کی طرح ہے۔ اس لکڑی کے اوپر ایک چھوٹا سا گنبد تعمیر کیا گیا، جس کی اونچائی 8 میٹر ہے اور یہ گنبد خضراءکے عین نیچے واقع ہے“۔ علامہ ابن حجر عسقلانیؒ نے حجرے کی چھت پر واقع اس گنبد کے حوالے سے بڑی عجیب بات لکھی ہے کہ ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں شدید قحط سالی ہوگئی تو لوگوں نے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے شکایت کی تو انہوںنے فرمایا کہ اپنے نبی کی قبر کے اوپر چھت کھول دو، تاکہ اس کے اور آسمان کے مابین کوئی پردہ نہ رہے۔ چنانچہ صدیقہؓ کے حجرے کی چھت قبر اطہرکے اوپر کھولی گئی تو موسلادھار بارش سے مدینہ منورہ جل تھل ہوگیا۔ اس سال اتنی بارش ہوئی کہ ہرطرف ہریالی ہوگئی، اونٹ خوب موٹے ہوگئے تو اس سال کا نام ہی ”عام الفتق“ پڑ گیا۔ (ابن حجرؒ نے یہ روایت مشکوٰة شریف کی شرح 362/5 میں نقل کی ہے) روضہ اطہر سے متعلق مذکورہ بالا معلومات معروف کتاب ”وفاءالوفاءبا اخبار دار المصطفیٰ“ کے مو¿لف السمہودیؒ نے اپنی مشہور تصنیف میں درج کی ہیں۔ مسجد نبوی، حجرہ شریف اور قبر مبارک کے حوالے سے یہ کتاب سب سے مستند حوالہ ہے۔ یہاں تک کہ وکی پیڈیا میں روضہ اطہر سے متعلق درج تمام تفصیلات بھی اسی سے اخذ شدہ ہیں۔ اس کتاب میں مدینہ منورہ کی تاریخ سے متعلق تمام معلومات جمع کی گئی ہیں۔ علامہ السمہودیؒ کی وفات 911 ہجری میں ہوئی۔ 881 ہجری یا 1477 عیسوی سے لے کر اب تک تقریباً ساڑھے پانچ سو سال کے عرصے میں کوئی انسان آنحضرت کی قبر مبارک کی زیارت نہیں کر سکا ہے۔ تو چیچن صدر کہاں سے قبر مبارک تک پہنچ گئے؟ جہاں تک صدر صاحب کو لے جایا گیا، یہ سیدہ فاطمہؓ کی محراب والا کمرہ ہے۔ وہاں سے آگے روضہ اطہر تک مزید چار دیواریں اور ہیں۔ جیسے کہ آپ نقشے میں دیکھ سکتے ہیں۔