اسحاق ڈار ایک بار پھر معیشت کا "مرد بحران” بن کر ایسے وقت میں وطن واپس آ رہے ہیں جب ایک جانب ملکی معیشت کسی طور سنبھالی نہیں جا رہی اور دوسری جانب "شہباز کی پرواز ” کے مقابلے میں ڈالر کی پرواز بلند اور حد رفتار کہیں زیادہ ہے ۔۔اوپر سے حکومت کے سب سے بڑے حریف عمران خان لانگ مارچ ، دھرنے اور احتجاجی تحریک کی شعلہ بار دھمکیوں کے ساتھ میدان میں اترنے کی تیاری کر رہے ہیں اور لگتا یہی ہے کہ اپنے دو بڑے اہداف یعنی فوری انتخابات اور مرضی کے آرمی چیف کی تعیناتی کے حصول میں ناکامی نے ان کی فرسٹریشن انتہا کو پہنچا دی ہے، اور ” کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے” کے فارمولے کے تحت اب ان کا اولین ہدف سیاسی عدم استحکام اور انارکی پیدا کرنا ہے جس کا لازمی نتیجہ ادھ موئی معیشت کے آکسیجن پائپ پر پاؤں رکھنے جیسا ہو سکتا ہے۔
اگرچہ معیشت کو اس حال تک پہنچانے میں زیادہ کردار انہی کی حکومت کا ہے مگر شہباز سرکار کیلئے اب مزید یہ چورن بیچنا ممکن نہیں رہا، لوگ اب سوال کر رہے ہیں کہ آپ کو اقتدار میں آئے ہوئے بھی نصف برس ہونے کو ہے، اور آپ مزید ایک برس تک ایوان اقتدار کو رونق بخشنے پر بضد بھی ہیں تو اپنی پٹاری سے وہ گیدڑ سنگھی بھی آپ ہی کو نکالنا ہو گی جس کے چمتکار سے معیشت کے تن مردہ میں جان پڑ جائے اور عام آدمی کے جسم و جاں کے درمیان تعلق بحال ہو سکے۔لوگ سوال کرتے ہیں کہ جب اپوزیشن میں ہوتے ہوئے مفتاح اسماعیل کو 137 روپے لیٹر پٹرول قبول نہیں تھا تو حکومت میں آکر وہی مفتاح اسماعیل 250 روپے لٹر کی وکالت کیوں کر رہے ہیں؟ لوگ یہ بھی پوچھتے ہیں کہ بقول وزیر اعظم ناک سے لکیریں نکالنے کے بعد ہی سہی، آئی ایم ایف کی گرانٹ مل گئی، اس سے پہلے دوست ممالک نے امداد اور قرضوں کے وعدے بھی کر لئے ، پھر بھی مہنگائی سپرسانک کی رفتار سے کیوں بڑھ رہی ہے، ڈالر قابو میں کیوں نہیں آرہا؟روپے کی بے قدری انتہا کو کیوں پہنچی ہوئی ہے؟ زرمبادلہ کے ذخائر مسلسل کم کیوں ہو رہے ہیں؟ معیشت کی اکھڑتی سانسیں بحال کیوں نہیں ہو رہیں؟
شاید انہی سب سوالوں کا جواب دینے کے لیے اب اسحاق ڈار کو میدان میں اتارا جا رہا ہے ،جو اس کار خیر کے لیے بے تاب تو روز اول ہی سے تھے مگر کچھ قانونی اور عدالتی رکاوٹیں حائل تھیں ،تو کچھ اپنے بھی دیدہ و دل فرش راہ کرنے کے لئے آمادہ نہ تھے۔ یعنی
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں ،بیگانے بھی ناخوش
والا معاملہ تھا۔ بڑے میاں صاحب اور ان کا ہم خیال گروپ شروع ہی سے اسحاق ڈار کو میدان میں اتارنے کے حق میں تھے مگر شہباز شریف کی قیادت میں "یہاں والوں” کا اصرار تھا کہ مفتاح اسماعیل کو کام کرنے کیلئے فری ہینڈ دیا جاۓ، وہ رزلٹ دیں گے، بقول فیض
مگر یہ ہو نہ سکا، اور اب یہ عالم ہے
بہرحال اب آج کی حقیقت یہی ہے کہ دائمی وارنٹ گرفتاری معطل کرنے کے عدالتی حکم کے بعد ڈار صاحب کی واپسی میں حائل آخری رکاوٹ بھی ختم ہو گئی ہے، ضبط شدہ پاسپورٹ انہیں پہلے ہی مل چکا ہے۔چنانچہ انہوں نے ترنت اعلان کردیا ہے کہ وہ آئندہ ہفتے وطن واپس آ سکتے ہیں۔ زیادہ امکان تو اسی بات کا ہے کہ "سنیٹر” اسحاق ڈار حلف اٹھانے کے بعد مفتاح اسماعیل کی جگہ وزیر خزانہ کا قلمدان سنبھال لیں جن کیلئےوزارت برقرار رکھنے کی خاطر چھ ماہ کی مدت کے اندر سنیٹر یا رکن اسمبلی منتخب ہونا ضروری ہے (محدود اختیارات کے ساتھ مشیر البتہ وہ رہ سکتے ہیں) ایک امکان یہ بھی ہے کہ اسحاق ڈار کیلئے نائب وزیراعظم ٹائپ کا کوئی راستہ نکال لیا جاۓ،بعض تجزیہ نگار تو مستقبل قریب میں انہیں کسی اہم آئینی عہدے پر براجمان دیکھتے ہیں۔
یادش بخیر میاں نواز شریف کے پچھلے دور حکومت میں وہ اس عہدے کے بغیر بھی وزیراعظم کے کئی ایک اختیارات (ظاہر ہے ان کی آشیرباد سے )استعمال کرتے رہے ہیں بلکہ بعض ناقدین تو انہیں پیار سے”ڈیفیکٹو وزیر اعظم” بھی کہتے رہے ہیں۔ اسحاق ڈار کی شہرت یہ ہے کہ وہ نتائج دینے کی ذمہ داری لیتے ہیں ، اور پھر سولو فلائٹ کے ذریعےاپنے فارمولے پر بے دھڑک عمل کرتے ہیں ۔ خود کو صرف میاں نواز شریف کے سامنے جوابدہ سمجھتے ہیں ،کسی اور کو خاطر میں نہیں لاتے۔ ظاہر ہے یہ اعتماد بڑے میاں صاحب ہی کا عطا کردہ ہے۔ تو پھر یہ سمجھا جائے کہ خود نواز شریف کی وطن واپسی تک اسحاق ڈار کی صورت میں خود نواز شریف ہی میدان میں اتر رہے ہیں ۔۔کم از کم معیشت کے میدان کی حد تک ؟