ندیم محمود: پہلی قسط
خواجہ سراؤں کے تحفظ کے نام پر منظور کیے جانے والے متنازعہ ٹرانس جینڈر ایکٹ کو جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے پاکستانی معاشرے کے لیے ایک بڑا ٹائم بم اور تہذیبی دہشت گردی قرار دیتے ہوئے اس حکومتی موقف کو مسترد کر دیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ پر شرعی عدالت کا فیصلہ حتمی ہوگا۔
تین روز پہلے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے وزیراعظم کے معاون خصوصی اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما قمر زمان کائرہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ وفاقی حکومت نے ٹرانس جینڈر ایکٹ کے حوالے سے تفصیلی جواب جمع کرادیا ہے اور اس پر وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ حتمی ہوگا۔
تاہم سینیٹر مشتاق احمد نے اس حکومتی اعلان کو فراڈ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسی وفاقی شرعی عدالت نے سود کے خلاف جو فیصلہ دیا تھا ، اس پر حکومت نے کتنا عمل کیا؟ اسٹیٹ بینک اور نیشنل بینک نے اس فیصلے کے خلاف حکم امتناعی لے رکھا ہے۔ جبکہ حکومت بہانہ گھڑ رہی ہے کہ یہ دونوں بینک اس کے دائرہ اختیار میں نہیں۔ ایسے میں وہ سمجھتے ہیں کہ اصل فورم پارلیمان ہے۔ حکومت اگر مخلص ہے تو اسے پارلیمنٹ کے ذریعے اس قانون میں مجوزہ ترامیم منظور کرنی چاہئیں۔
واضح رہے کہ سینیٹر مشتاق احمد نے گذشتہ برس ’’ٹرانس جینڈر پرسنز (ترمیمی) بل‘‘ پیش کیا تھا۔ انہوں نے سینیٹ کی باڈی کو آگاہ کیا تھا کہ پاکستان کا آئین واضح طور پر کہتا ہے کہ کوئی بھی ایسا قانون نافذ نہیں کیا جائے گا جو اسلام کے احکام کے منافی ہو اور بتایا تھا کہ خواجہ سرا بل، اسلامی نظریاتی کونسل کی پیشگی رائے لیے بغیر منظور کیا گیا۔ مشاق احمد کا مزید کہنا تھا کہ ٹرانس جینڈر (خواجہ سرا) اور انٹرسیکس کی اصطلاحات ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں اور منظور کئے گئے قانون سے یہ واضح ہورہا ہے کہ وہ ٹرانس جینڈر نہیں بلکہ انٹرسیکس افراد کی ضروریات کو پورا کرے گا۔ جس سے ہم جنس پرستی کو فروغ ملے گا۔ مجوزہ ترمیم کے حوالے سے سینیٹر مشتاق احمد نے یہ تجویز بھی دی تھی کہ اگر کوئی نادرا میں جنس کی تبدیلی کی درخواست دائر کرتا ہے، تو اسے پہلے میڈیکل ٹیسٹ کرانا ہوگا۔ لہٰذا اس کے لئے ایک میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جانا چاہئے۔ کیونکہ ٹرانس جینڈر ایکٹ میں لوگوں کو اپنی مرضی سے اپنی صنفی شناخت تبدیل کرنے کا حق دیا گیا ہے۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اب تک تیس ہزار افراد اپنی جنس تبدیل کرانے کے لئے نادرا کو درخواست دے چکے ہیں۔
سینیٹر مشتاق احمد کی جانب سے گزشتہ برس ترمیمی بل پیش کئے جانے کے بعد سے یہ ایشو ملک بھر میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ خاص طور پر پچھلے چند ماہ سے سوشل میڈیا پر ٹرانس جینڈر ایکٹ کے خلاف بھرپور احتجاج کیا جارہا ہے۔ اس شدید عوامی ردعمل سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہر پاکستانی مسلمان، دینی اقدار کے خلاف ہونے والی ہر سازش پر عقابی نگاہ رکھتا ہے اور اسے صبا کی رفتار سے پکڑتا ہے۔
قریباً تین برس پہلے معروف عالم دین مفتی منیب الرحمان نے بھی ’’ٹرانس جینڈر ایکٹ‘‘ کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے اس کی اصلیت بیان کردی تھی۔ دوہزار انیس میں شائع اپنے ایک تفصیلی مضمون میں مفتی منیب الرحمان نے نشاندہی کی تھی کہ ’’اس ایکٹ کا اصل ایجنڈا پاکستان میں ہم جنس پرستی کو فروغ دینا ہے۔ اور یہ کہ مغرب میں ایل جی بی ٹی گروپ اس قانون کو اپنے موقف کی تائید میں استعمال کر رہا ہے۔‘‘ آج کل ایک بار پھر مفتی منیب الرحمان کا یہ چشم کشا مضمون سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ سینیٹر مشتا ق احمد نے بھی ٹرانس جینڈر ایکٹ میں ترمیم کا بل پیش کرنے کے لئے مفتی منیب الرحمان کے اس مضمون سے بھرپور استفادہ کیا۔
’’امت‘‘ نے اپنے طور پر بھی ٹرانس جینڈر ایکٹ کے پس پردہ عوامل اور ملک میں موجود ہم جنس پرستی کے حامی ایل جی بی ٹی نیٹ ورک پر تحقیقی کام کیا ہے۔ اس کی تفصیلات خاصی ہوشربا ہیں، جس کا ذکر رپورٹ کی دوسری قسط میں کیا جائے گا۔ فی الحال متنازعہ ٹرانس جینڈر ایکٹ کے حوالے سے سینیٹر مشاق احمد اور مفتی منیب الرحمان سے کی گئی خصوصی گفتگو قارئین کی نذر کی جارہی ہے۔
سینیٹر مشتاق احمد کا کہنا ہے کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ کے حوالے سے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور قمر الزماں کائرہ نے دو متضاد باتیں کی ہیں۔ ایک طرف وہ کہہ رہے ہیں کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے اور ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ جب کوئی قانون منظور ہوتا ہے تو اس میں کوئی نہ کوئی پہلو یا کمزوری رہ جاتی ہے۔ لہٰذا اس کی اصلاح کی جاسکتی ہے۔ جب ان سے استفسار کیا گیا کہ بیان کے اسی تضاد کی بنیاد پر کیا آپ حکومتی موقف کو مسترد کر رہے ہیں؟ سینیٹر مشتاق احمد کا جواب تھا ’’میرا کہنا ہے کہ یہ قانون قرآن وسنت سے متصادم ہے۔ حکومت اگر واقعی سنجیدہ ہے اور سمجھتی ہے کہ قانون میں سقم ہے تو اصلاح کی طرف قدم بڑھائے اور میری مجوزہ ترامیم کو تسلیم کرتے ہوئے آرڈیننس کے ذریعے اس ایکٹ کو فوری ختم کردے۔ اس کے لئے وہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کی بات نہ کرے۔ کیونکہ ماضی کا تجربہ بتاتا ہے، وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں پر حکومت عمل نہیں کرتی ہے۔ اب عوام میں بھی اس حوالے سے خاصی آگہی آچکی ہے۔ حکومت، ترامیم سے متعلق مثبت قدم نہیں اٹھائے گی تو انتشار بڑھے گا۔‘‘
ٹرانس جینڈر ایکٹ کے پس پردہ عوامل کے بارے میں سینیٹر مشاق احمد کا کہنا تھا ’’اس قانون کے پیچھے عالمی ادارے اور امریکی سفارت خانہ ہے۔ امریکہ کا یہ اعلانیہ موقف ہے کہ وہ پاکستان میں ایل جی بی ٹی کا تحفظ کرے گا۔ اسے حقوق دلائے گا۔ اس کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ اسی لئے اس قانون کو میں نے پاکستانی ثقافت پر حملہ اور تہذیبی دہشت گردی قرار دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہمارا خاندانی نظام، شادی کے معاملات، قانونی وراثت اور ہماری شرم و حیا کی روایات، سب خطرے میں پڑگئی ہیں۔‘‘ اس متنازعہ قانون میں ترامیم کے حوالے سے پارلیمان موجود سیاسی پارٹیوں کے رول کے بارے میں مشتاق احمد کا کہنا تھا کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) اور جمعیت اہل حدیث کے سربراہ پروفیسر ساجد میر ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ باقی تقریباً تمام سیاسی پارٹیاں اس متنازعہ قانون کی حامی اور اس میں ترامیم کے خلاف ہیں۔
یہاں یہ بتاتے چلیں کہ دو ہزار اٹھارہ میں جب پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد متنازعہ ’’ٹرانس جینڈر پرسنز پروٹیکشن ایکٹ‘‘ نافذ العمل ہوا تھا تو صرف جماعت اسلامی اور جے یو آئی نے اس کی مخالفت کی تھی۔ نون لیگ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم سمیت دیگر پارٹیاں اس قانون کے حق میں ایک پیج پر تھیں، مطلب اس متنازعہ ایکٹ کو لانے میں ان کا بھرپور رول تھا۔
اگرچہ نون لیگ کی موجودہ حکومت اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں اس کے ارکان، اس قانون میں ترمیم کی اب بھی مخالفت کر رہے ہیں۔ تاہم سینیٹر مشتاق احمد نے انکشاف کیا ہے کہ نون لیگ کے کئی ارکان نے ان سے رابطہ کرکے اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے۔ اس بارے میں مشتاق احمد نے بتایا ’’سینیٹر حافظ عبدالکریم، سینیٹر پیر صابر شاہ، سینیٹر ا فنان اللہ خان اور رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نثار چیمہ سمیت نون لیگ کے کئی ارکان پارلیمنٹ نے مجھ سے رابطے کئے ہیں اور کہا ہے کہ وہ ناصرف خود میری مجوزہ ترامیم کے ساتھ کھڑے ہیں، بلکہ اپنی پارٹی کے اندر بھی ان ترامیم کے حق میں لا بنگ کریں گے۔ اسی طرح جے یو آئی کے سینیٹر مولوی فیض محمد بھی میری ترامیم کو سپورٹ کر رہے ہیں۔‘‘ سینیٹر مشتاق احمد کے بقول دراصل جو لوگ بھی اس بل کو غور سے پڑھتے ہیں، ان پر اس کے اصل مقاصد آشکار ہوجاتے ہیں۔ اور وہ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ قانون ہمارے نظام کے لئے ایک بڑا ٹائم بم ہے۔
اس سوال پر کہ کیا پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم یا پی ٹی آئی کے ارکان میں سے بھی کسی نے اس حوالے سے آپ سے رابطہ کیا ہے؟ مشتاق احمد کا کہنا تھا ’’نون لیگ اور جے یو آئی کے علاوہ دوسری کسی پارٹی کے رکن نے اب تک مجھ سے رابطہ نہیں کیا ہے۔ بلکہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق میں موجود تحریک انصاف کے ارکان تو میری مخالفت کر رہے ہیں۔ جب یہ لوگ حکومت میں تھے اور میں نے نومبر دو ہزار اکیس میں یہ ترامیم پیش کی تھیں، تب بھی یہ میری مخالفت کر رہے تھے۔ طرفہ تماشا ہے کہ پی ٹی آئی اس قانون کے خلاف ہونے کا کریڈٹ بھی لے رہی ہے، جبکہ میری ترامیم کی مخالفت کرنے والے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے ارکان میں خود اس کمیٹی کے چیئرمین ولید اقبال شامل ہیں، جن کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے۔ ٹرانس جینڈر ایکٹ میں میرے ترمیمی بل کے حوالے سے پانچ ستمبر کو کمیٹی کے پہلے اجلاس میں نون لیگ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور عوامی نیشنل پارٹی، ان سب کے ارکان نے ترامیم کے خلاف رائے دی۔ اسی طرح انسانی حقوق کی وزارت نے تو تحریری طور پر مخالفت کی۔
واضح رہے کہ علامہ اقبال کے پوتے اور پی ٹی آئی کے سینیٹر ولید اقبال کی سربراہی میں پانچ ستمبر کو قائمہ کمیٹی کے اس اجلاس میں، جہاں پہلی بار ٹرانس جینڈر ایکٹ سے متعلق مجوزہ ترامیم زیر بحث آئیں، سینیٹر مشاہد حسین سید، سینیٹر محمد طاہر بزنجو، سینیٹر سیمی ایزدی، سینیٹر عابدہ محمد عظیم، سینیٹر کامران مائیکل، سینیٹر پروفیسر ڈاکٹر مہر تاج روغانی، سینیٹر کیشو بائی، سینیٹر مشتاق احمد اور سینیٹر عطا الرحمان نے شرکت کی تھی۔ اس موقع پر سینیٹر ڈاکٹر ہمایوں مہمند، سیکریٹری وزارت انسانی حقوق افضل لطیف، چیئرپرسن نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق رابعہ جویری آغا، آئی جی اسلام آباد پولیس اکبر ناصر خان، وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ کے دیگر متعلقہ افسران بھی موجود تھے۔
اس سوال پر کہ اب آپ کی مجوزہ ترامیم پر بحث کے لئے قائمہ کمیٹی کا اگلا اجلاس کیا حتمی ہوگا؟ اور یہ کہ آپ کے خیال میں ترامیم کے منظور ہونے کا کتنا امکان ہے؟ سینیٹر مشتاق احمد کا کہنا تھا ’’اگر عوامی دبائو اسی طرح برقرار رہا تو مجھے امید ہے کہ حکومت ترامیم منظور کرنے پر مجبور ہوجائے گی۔ جہاں تک قائمہ کمیٹی کے اگلے اجلاس کی بات ہے تو یہ اکتوبر میں ہوگا اور حتمی ہوگا۔ جس کے بعد میری ترامیم پر کمیٹی ووٹنگ کرائے گی۔ اور پھر اس ووٹنگ کے نتائج پر مبنی رپورٹ سینیٹ کے سامنے رکھے گی۔ اگر سینیٹ میں میری ترامیم کو منظور کرالیا جاتا ہے تو پھر یہ معاملہ قومی اسمبلی میں جائے گا۔‘‘
رپورٹ میں بیان کیا جاچکا ہے کہ کس طرح تین برس پہلے مفتی منیب الرحمان نے ٹرانس جینڈر ایکٹ کے اصل حقائق پر ایک تفصیلی مضمون لکھ کر عوام کو آگہی دی تھی اور بتایا تھا کہ یہ قانون قرآن و سنت کے منافی ہے اور اس کا مقصد پاکستان میں ہم جنس پرستی کو فروغ دینا ہے۔ ’’امت‘‘ نے اس معاملے پر مفتی منیب الرحمان سے بھی رابطہ کیا۔
مفتی منیب الرحمان کا کہنا تھا کہ جب دو ہزار اٹھارہ میں ٹرانس جینڈر ایکٹ منظور ہوا تو اس وقت بھی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کی نمائندگی تھی۔ پتا نہیں یہ کیوں بے خبر رہے؟ ان دنوں میں امریکہ کے دورے پر تھا۔ مجھے معلوم ہوا تو میں نے واپس آکر خاصی تحقیق کے بعد تفصیل سے اس پر تین اقساط پر مشتمل کالم لکھا اور اس ایکٹ کے اصل ایجنڈے کو اجاگر کیا۔ تاہم اس ایشو پر اس وقت اتنا دھیان نہیں دیا گیا تھا۔
پچھلے برس جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے اس ایکٹ میں ترامیم کا بل پیش کیا۔ دیر آید درست آید کے تحت پیش رفت تو ہوئی، جو خوش آئند ہے۔ لیکن حکومت کی جو پوزیشن ہے، اسے دیکھتے ہوئے مجھے لگتا نہیں کہ وہ اس سلسلے میں کچھ کر پائے گی۔ کیونکہ حکومت کے اتحادیوں میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم جیسی لبرل پارٹیاں شامل ہیں۔ اس کے باوجود حکومت اگر کوئی سنجیدہ قدم اٹھالے تو اچھی بات ہوگی۔ روشن خیالی سے متعلق ایک سوال پر مفتی منیب الرحمان کا کہنا تھا ’’پاکستان کے ساتھ پرویز مشرف جو کرگئے۔ وہ کسی اور نے نہیں کیا۔ انہوں نے قومی اسمبلی میں خواتین کی سات سیٹیں مختص کیں، جو روئے زمین کی کسی جمہوریت میں نہیں ہیں۔
بھارت میں لوک سبھا کی ساڑھے چھ سو سیٹیں ہیں، لیکن ایک بھی ریزرو سیٹ نہ اقلیت کیلئے ہے اور نہ ہی خواتین کے لئے ہے۔ نہ امریکہ اور برطانیہ کی پارلیمنٹ میں ایسا کچھ ہے۔ لیکن ہمیں دنیا میں سب سے زیادہ روشن خیال بننے کا شوق تھا۔ اب اگر آپ ٹرانس جینڈر ایکٹ جیسے کسی قانون میں ترمیم کرنا چاہیں تو پارلیمنٹ میں ریزرو سیٹوں پر آنے والی ان خواتین اور اقلیتی ارکان کاووٹ حاصل کر نا ہوگا، تب ہی ترمیم کرسکیں گے۔ بھٹو کے متعارف کردہ انیس سو تہتر کے آئین میں یہ ضرور تھا کہ اقلیت اور خواتین کو ریزرو سیٹوں پر نمائندگی دی گئی تھی، لیکن ساتھ ہی کہا گیا تھا کہ اگلے دس برسوں میں جمہوریت بالغ ہو جائے گی تو یہ سیٹیں ختم کردی جائیں گی۔ چنانچہ انیس سو اٹھاسی میں یہ ریزرو سیٹیں ختم کردی گئی تھیں۔ پھر انیس سو نوے ، انیس سو ترانوے اور انیس سو ستانوے کی جو اسمبلی تھی، وہ ان ریزرو سیٹوں کے بغیر دو سو سترہ ارکان پر مشتمل تھی۔
بعد ازاں پرویز مشرف نے اقلیت اور خواتین کی ریزرو سیٹیں شامل کردیں اور اس ملک کو تماشا بنا دیا۔ آج تک یہ سلسلہ چلا آرہا ہے۔ اب آپ بتائیں کہ ایک قانون زیر بحث ہے کہ وہ قرآن وسنت کے مطابق ہے یا نہیں؟ اس پر پارلیمان میں بیٹھے اقلیتی ارکان جس طرف ووٹ ڈالیں گے، وہ اکثریتی قانون بن جائے گا۔ کیونکہ ووٹ تو برابر کا ہے۔‘‘ اس سوال پر کہ جس طرح پارلیمنٹ میں اقلیت اور خواتین کے لئے ریزرو سیٹوں کا کوٹہ رکھا گیا ہے اگر ٹرانس جینڈر ایکٹ مستقل قانون بن جاتا ہے تو کل ان کے لئے بھی پارلیمان میں ریزرو سیٹیں رکھی جاسکتی ہیں؟ مفتی منیب الرحمان کا کہنا تھا کہ بالکل یہ امکان موجود ہے۔ اس کا ہی بندوبست کیا جارہا ہے۔ (جاری ہے)