وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والے مسلم لیگ ن کے رہنماؤں اور وفاقی وزرا کے اجلاس کی آڈیو لیک ہو گئی۔
آڈیو میں وزیراعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثنااللہ، وزیر دفاع خواجہ آصف اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سمیت دیگر رہنماؤں کی آوازیں ہیں۔
لیک ہونے والی آڈیو میں مبینہ طور پر ن لیگی رہنما اور وفاقی وزرا پی ٹی آئی کے استعفوں پر بات کر رہے ہیں۔
آڈیو کلپ میں مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کو مبینہ طور پر پی ٹی آئی کے استعفوں پر اپنی رائے دیتے ہوئے اور استعفوں کو قبول کرنے کے لئے لندن سے اجازت مانگتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔
لیک ہونیوالے آڈیو کلپ میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ30 , 30 ارکان کو نوٹس دے رہے ہیں، ایاز صادق کا کہنا تھا کہ لسٹ بنا کر دیں گے کس کس کو ملنا ہے، لیڈر شپ اپروول دے دی۔
آڈیو لیک ہونے پر سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کیا وزیراعظم ہاؤس میں ایسے خفیہ ریکارڈنگ سسٹم لگے ہوئے ہیں جنہیں حکومتی ارکان بھی نہیں جانتے؟۔
کیا وزیراعظم ہاؤس اتنا غیر محفوظ ہے کہ وہاں ہونے والی گفتگو کہیں اور سنی جاسکتی ہے؟
یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ آڈیو سامنے آنے کے بعد کیا وزیراعظم ہاؤس میں قومی سلامتی کے معاملے پر کوئی اجلاس ہو سکتا ہے؟
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کیا حکومت اور وزیراعظم پالیسی سازی کے لیے ان کیمرا اجلاس کرکے مطمئن ہو سکتے ہیں؟
حکومت اس بارے میں کیا کرنے جارہی ہے، ابھی تک کوئی پالیسی سامنے نہیں آئی جبکہ ن لیگی ارکان اور وفاقی وزراء وزیراعظم ہاؤس کے اجلاس کی آڈیو لیک کے معاملے پر بات کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔
حکومت اس بارے میں کیا کرنے جارہی ہے، ابھی تک کوئی پالیسی سامنے نہیں آئی جبکہ ن لیگی ارکان اور وفاقی وزرا کا وزیراعظم ہاؤس کے اجلاس کی آڈیو لیک کے معاملے پر بات کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔
دوسری جانب وزیر اعظم میاں شہباز شریف اور دیگر سیاستدانوں کی گفتگو لیک ہونے پر ماہرین سائبر سکیورٹی اسے حساس معاملہ قرار دے رہے ہیں۔