احمد خلیل جازم:
اڈیالہ جیل میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ کو مطمئن کرنے کی غرض سے ستائیس بے قصور چھوٹے جیل ملازمین کا تبادلہ اور پانچ کو معطل کرکے بڑی مچھلیوں کو بچا لیا گیا۔ اہم بات یہ ہے کہ ان وارڈرز اور ہیڈ وارڈرز کو بھی نشانہ بنایا گیا جن کی ڈیوٹیاں جیل کے اندر نہیں، بلکہ کورٹ رومز اور بیرون احاطہ اور ٹاورز وغیرہ پر ہیں۔ ان کا جیل کے اندر تشدد اور کرپشن سے کسی قسم کا کوئی تعلق ہی نہیں رہا۔ یہ ٹرانسفرز اور معطلیاں گزشتہ ہفتے کی رات ڈی آئی جی آفس سے اس وقت کی گئیں جب چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ، اڈیالہ جیل کا دورہ کرکے واپس گئے۔ جہاں قیدیوں نے قرآن پاک ہاتھ میں لے کر چیف جسٹس کو بتایا کہ انہیں مسجد میں نماز پڑھنے تک کے پیسے دینے پڑتے ہیں۔ قیدیوں کو برہنہ کرکے مارا جاتا ہے اور لنگر خانے سے جانوروں کی طرح بچا کھچا کھانا دیا جاتا ہے۔ جبکہ اچھا مال متمول قیدیوں کو بیچ دیا جاتا ہے۔ یہ جیل ایک عقوبت خانہ بن چکی ہے۔
واضح رہے کہ ہفتے کے روز چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے ایک قیدی پر تشدد روکنے کی درخواست پر اڈیالہ جیل کا دورہ کیا۔ چیف جسٹس نے نہ صرف اس قیدی سے بذات خود ملاقات کی بلکہ کچھ بارکوں میں دیگر قیدیوں سے ملاقات بھی کی، جنہوں نے اڈیالہ جیل میں کرپشن اور انسانیت سوز مظالم کی داستانیں سنائیں۔ جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اعلیٰ افسران سے بغیر کچھ کہے سنے واپس چلے گئے۔ اسی تناظر میں یہ ٹرانسفرز اور معطلیاں کی گئیں، جن میں محمد اکرم ڈپٹی جیل سپرنٹنڈنٹ بھی راتوں رات معطل ہوئے، تاہم اتوار کو انہیں واپس بحال کر دیا گیا۔
ذرائع کے مطابق اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ متاع محمد کو موجودہ سپرنٹنڈنٹ جیل اعجاز اصغر، ڈسٹرکٹ جیل لاہور سے بطور فرنٹ مین ساتھ ٹرانسفر کرا کے لائے ہیں۔ جیل میں بنے کلب نما جم سیکشن میں جو بھی قیدی ورزش کی غرض سے آتا تھا، متاع محمد ہر قیدی سے دس روز کے پانچ ہزار روپے بطور رشوت لیتے تھے۔ ایک 21 سالہ قیدی شہاب الدین شاہ دفعہ 788 کے تحت جوڈیشل ہوا تھا۔ اس نے رشوت دینے سے انکار کیا تو متاع محمد نے اسے تھپڑ مارے اور وہاں سے بھگا دیا۔ دوسرے روز شہاب الدین کی (اے ٹی سی کورٹ میں) تاریخ طلبی تھی۔ جہاں اس نے اسی حوالے سے درخواست دائر کر دی کہ مجھے پیسے نہ دینے پر مارا پیٹا گیا ہے۔
اے ٹی سی جج نے سپرنٹنڈنٹ جیل کو طلب کرکے وضاحت طلب کی تو اعجاز اصغر سپرنٹنڈنٹ جیل نے کہا کہ یہ چھوٹے موٹے معاملات ہوتے ہیں، میں انہیں حل کرادیتا ہوں۔ چنانچہ جج نے اسی بنیاد پر درخواست داخل دفتر کر دی۔ لیکن جب اعجاز اصغر واپس آئے تو متاع محمد سے شہاب الدین کو شدید انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنوایا۔ ذرائع نے بتایا کہ شہاب الدین کو برہنہ کرکے اتنا تشدد کیا گیا کہ اس کا بازو فریکچر ہوگیا۔ اگلے روز جب شہاب الدین کی والدہ امتیاز بی بی ملاقات کی غرض سے آئیں تو متاع محمد اور اعجاز اصغر نے ملاقات نہیں ہونے دی۔ بلکہ زخمی قیدی کو ’قصوری چکی‘ میں بند کر دیا۔ امتیاز بی بی کو ایک قیدی ظہیر الدین بابر نے جیل کے پی سی او سے فون کرکے تمام تر تفصیلات سے آگاہ کیا کہ کس طرح ان کے بیٹے کے ساتھ انسانیت سوز سلوک ہوا ہے۔ اس کی حالت بہت خراب ہے اور اس نے بھوک ہڑتال کی ہوئی ہے۔ اس پر امتیاز بی بی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو درخواست دی کہ اس کے بیٹے کی جان کو خطرہ ہے اور جیل میں اس کے ساتھ انسانیت سوز سلوک ہوا ہے۔
چیف جسٹس نے درخواست پر کارروائی کرتے ہوئے فوری طور پر حقوق انسانی کے سیکریٹری کو کہا کہ وہ جیل میں اگلے روز میڈیکل ٹیم لے کر جائیں اور متذکرہ قیدی کا معائنہ کرکے رپورٹ دیں۔ تین دن روزانہ سماعت ہوتی رہی اور میڈیکل بورڈ نے جمعہ کو اپنی رپورٹ جمع کرادی کہ اس پر واقعی شدید نوعیت کا تشدد ہوا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے سوموٹو نوٹس لیتے ہوئے سیکریٹری حقوق انسانی، ایسٹ ویسٹ سیشن ججزاسلام آباد، ہوم سیکریٹری پنجاب اور آئی جی جیل خانہ جات پنجاب کو ہفتے کے روز صبح نو بجے اڈیالہ جیل پر وقت دے کر جیل کا وزٹ رکھ لیا۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ جب چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ، پہلی بارک میں ہی داخل ہوئے تو قیدیوں نے متاع محمد کے خلاف شکایات کے انبار لگا دیے کہ یہ ہمیں گالیاں دیتا ہے۔ پہلے بارک کا ٹھیکہ پچیس ہزار تھا۔ اب متاع محمد ایک لاکھ روپیہ وصول کرتا ہے۔
اس سوال پر کہ کس چیز کا ٹھیکا؟ ذرائع کا کہنا تھا کہ ٹھیکہ سے مراد ’جگا ٹیکس‘ ہے۔ جو قیدیوں کو اپنی سہولت کی خاطر دینا ہوتا ہے۔ جب قیدی ملاقات یا کورٹ سے واپس آتے ہیں تو قیدیوں کے رشتہ دار انہیں پیسے دیتے ہیں۔ دوران تلاشی وہ آدھے پیسے بھی جیل انتظامیہ ضبط کر کے رکھ لیتی ہے۔ دوسری بارک میں موجود قیدیوں نے چیف جسٹس سے شکایت کی کہ ہمیں مسجد میں نماز کی غرض سے بھی جانا ہو تو متاع محمد، سپرنٹنڈنٹ جیل کے کہنے پر ہم سے اس پر بھی پیسے وصول کرتا ہے۔ اس موقع پر سیشن جج ویسٹ اپنے ویڈیو کیمرے سے تمام قیدیوں کے بیانات کی ویڈیو بناتے رہے، تاکہ ریکارڈ رہے۔ چوتھی بارک میں قیدیوں نے ان مظالم کے بیان کے ساتھ ایک قیدی نے سر پر قرآن رکھ کر یہ بھی بتایا کہ قیدیوں کے لنگر کا جو سامان، چینی، آٹا، دالیں، گوشت اور سبزیاں وغیرہ آتی ہیں۔ جیل میں متمول قیدی پیسے دے کر یہ کچا راشن جیل حکام سے خرید لیتے ہیں۔ جبکہ ہمیں اسکیل کے مطابق کھانا نہیں دیا جاتا بلکہ جانوروں کی طرح ہمارے سامنے کھانا پھینک دیا جاتا ہے۔ پھر قیدی شہاب الدین سے ملاقات ہوئی تو اس نے اپنے اوپر بیتی تمام کارروائی بتائی۔ اس کے بعد چیف جسٹس دوسری بارک کے کمرہ نمبر چار میں گئے تو وہاں بھی ایک قیدی نے قرآن ہاتھ میں لے کر کہا کہ مجھ سے صرف بارک تبدیل کرنے کے پندرہ ہزار روپے متاع محمد نے بطور رشوت لیے۔ ہم پر بہت ظلم کیا جارہا ہے۔ لنگر تک کے پیسے لیے جاتے ہیں۔ جس دن سے متاع محمد اور سپرنٹنڈنٹ اعجاز اصغر آئے ہیں قیدیوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔
دوسری جانب حالیہ ٹرانسفر پوسٹنگ کے خلاف تمام متاثرہ ملازمین پیر کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ چیف جسٹس اطہر من اللہ سے انصاف مانگنے پہنچ گئے۔ صبح سے لے کر تین بجے دوپہر تک وردیوں میں یہ لوگ ہائی کورٹ میں موجود تھے۔ جہاں انہیں کہا گیا کہ آپ سب تحریری درخواست جمع کرائیں۔ چنانچہ درخواست نمبر 4988 جمع کرادی گئی ہے۔ جو چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے پیش ہوگئی ہے۔ ان ستائیس ملازمین کے مطابق ان کو یقین ہے کہ انہیں انصاف ملے گا۔ کیونکہ انہیں ایڈمن گرائونڈ پر بے گناہ ٹرانسفر کیا گیا ہے۔ جب کہ معطل ہونے والے ملازمین کی کبھی پہلے شکایت تک نہیں ہوئی۔ ان ٹرانسفرہونے والوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں اڈیالہ جیل ٹرانسفر پر آئے ہوئے ابھی چند دن ہی ہوئے ہیں۔ لیکن بقول ملازمین، اڈیالہ جیل کی بڑی مچھلیوں کو بچانے کے لیے انہیں قربان کر دیا گیا، اور کوئی پوچھنے والا نہیں ۔