ندیم محمود:
ٹرانس جینڈرز کو متنازع حقوق دینے کے معاملے پر اپنی نام نہاد روشن خیالی ثابت کرنے کے لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان نے برطانیہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ٹرانس جینڈرز کے تحفظ سے متعلق قانون میں توازن کے لئے جس ترمیم کی خاطر بھرپور مہم چلائی جا رہی ہے۔ اس شق کو برطانیہ نے ٹرانس جینڈرز سے متعلق اپنے قانون میں نہ صرف اٹھارہ برس سے شامل کر رکھا ہے۔ بلکہ تمام تر دبائو کے باوجود اس شق کے خاتمے سے متعلق مطالبے کو دو ٹوک رد کر دیا۔ صرف یہی نہیں۔ پاکستان میں ٹرانس جینڈرز کے حقوق کے نام پر متنازعہ ایکٹ نافذ کرنے والی دائیں اور بائیں بازو کی جماعتیں نون لیگ اور پیپلز پارٹی ایک پیج پر ہیں۔ وہیں، نئی برطانوی وزیراعظم لزٹرس نے اسی نوعیت کے قانون میں اصلاحات ختم کر کے ہم جنس پرست گروپ ایل جی بی ٹی اور ملک میں موجود اس کے حامیوں کی کثیر تعداد کو للکارا ہے۔ اس صورتحال میں ایل جی بی ٹی کے حامی، نئی برطانوی وزیراعظم کو اپنے لئے بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں۔
برطانیہ میں ٹرانس جینڈرز کے حقوق کو تسلیم کرنے سے متعلق قانون ’’جینڈر ریکگنیشن ایکٹ‘‘ ( Gender Recognation Act) دو ہزار چار میں متعارف کرایا گیا تھا۔ اس ایکٹ کے تحت برطانیہ کے بالغ افراد قانونی طور پر اگرچہ اپنی پیدائشی جنس تبدیل کر سکتے ہیں۔ تاہم اس کے لئے انہیں چند معیارات پر پورا اترنا ہوتا ہے۔ ان معیارات یا شرائط میں سب سے اہم یہ ہے کہ اپنی جنسی شناخت کی تبدیلی کی درخواست دینے والوں کو دو میڈیکل رپورٹس فراہم کرنی پڑتی ہیں۔ اگر ان طبی رپورٹس میں صنفی ڈسفوریا (Gender Dysphoria) کی تشخیص ہوجائے۔ تب ہی ایسے فرد کو جنسی شناخت تبدیل کرانے کی اجازت دی جاتی ہے۔
یہاں یہ بتاتے چلیں کہ جینڈر ڈسفوریا کو برطانوی نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) نے کسی فرد کے اندر ایسی بے چینی سے تعبیر کیا ہے۔ جو اسے یہ احساس دلائے کہ اس کی پیدائشی جنس اس کی موجودہ صنفی شناخت سے متصادم ہے۔ یعنی اگر وہ لڑکی ہے تو اسے احساس ہونے لگے کہ اس کی ذہنی حالت اور جسمانی ساخت لڑکوں جیسی ہو رہی ہے یا لڑکا ہے تو اس میں لڑکی جیسے احساسات اور خدوخال پیدا ہونے شروع ہو جائیں۔ بنیادی طور پر جینڈر ڈسفوریا کو بیک وقت نفسیاتی اور جسمانی، دونوں طرح کی بیماری قرار دیا جاتا ہے۔
برطانوی ’’ٹرانس جینڈر ریکگنیشن ایکٹ دو ہزار چار‘‘ کے تحت نہ صرف اپنی جنس میں تبدیلی کے خواہش مند افراد کے لئے میڈیکل کلیئرنس کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ بلکہ انہیں یہ ثبوت بھی فراہم کرنا ہوگا کہ وہ کم از کم دو سال سے اپنی خواہش کردہ جنس میں کل وقتی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس ثبوت کے لئے انہیں پاسپورٹ اور ڈرائیونگ لائسنس کی کاپیاں دینی پڑتی ہیں۔ یعنی برطانیہ میں کوئی فرد محض اپنی خواہش کے تحت خود کو لڑکی سے لڑکا یا لڑکے سے لڑکی قرار دے کر قانونی دستاویزات حاصل نہیں کر سکتا۔ جیسا کہ پاکستان میں ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ کے تحت بغیر کسی طبی معائنے کے ہزاروں افراد نے نادرا میں اپنی جنسی شناخت تبدیل کرانے کی درخواستیں دے رکھی ہیں۔
برطانیہ بھی اگرچہ ان ممالک میں شامل ہے۔ جہاں ہم جنس پرستی جیسی لعنت کے سب سے بڑے علمبردار گروپ ایل جی بی ٹی کو قانونی تحفظ دیا گیا ہے۔ اس کے باوجود جینڈر ایکٹ میں وہاں میڈیکل چیک اپ کی شرط رکھی گئی ہے۔ جو پاکستان میں ٹرانس جینڈر ایکٹ سے یکسر غائب ہے۔ تشخیص کے بغیر جنسی شناخت کو تبدیل کرانے پر پابندی سے متعلق برطانوی ایکٹ کو دو ہزار اٹھارہ میں اس وقت بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔
جب ملک میں سرگرم ایل جی بی ٹی گروپ کے لوگوں اور پارلیمنٹ میں موجود اس گروپ کے حامی قانون سازوں کی ایک بڑی تعداد نے ’’جینڈر ریکگنیشن ایکٹ‘‘ میں اصلاحات کا مطالبہ کر دیا۔ اس سلسلے میں اس قدر شدید کمپین چلائی گئی کہ اس وقت کی برطانوی وزیراعظم تھریسامے کو اس ایشو پر وسیع پیمانے پر عوامی مشاورت کرانے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ یہ وہ وقت تھا، جب ان ’’اصلاحات‘‘ کے حامیوں کو یقین ہو چلا تھا کہ انہیں اپنے مقصد میں کامیابی حاصل ہوجائے گی اور برطانوی حکومت کو جینڈر ایکٹ سے میڈیکل چیک اپ کی شق نکالنی پڑے گی۔ دو برس تک بڑے پیمانے پر یہ بحث چلتی رہی۔ اور حکومتی سطح پر مشاورت کا سلسلہ جاری رہا۔ نام نہاد اصلاحات کے حق میں بڑے پیمانے پر مظاہرے کئے گئے۔ مشاورت کے سلسلے میں موصول ہونے والے ایک لاکھ دو ہزار آٹھ سو اٹھارہ جوابات میں سے چونسٹھ فیصد نے کہا کہ جنسی شناخت کی تبدیلی کے لئے مستقبل میں جینڈر ڈسفوریا کی شناخت ضروری نہیں ہونی چاہئے۔ اس صورتحال میں وزیراعظم تھریسامے نے بھی کسی حد تک ان اصلاحات کو تسلیم کرنے کا عندیہ دے دیا تھا۔ تاہم اس سے قبل ہی ان کی وزارت عظمیٰ چلی گئی۔ اس دوران ایکٹ سے طبی تشخیص کی شق نکالنے سے متعلق طویل مشاورت کا سلسلہ جاری رہا۔
آخر کار فیصلے کا وقت آگیا۔ ستمبر دو ہزار بیس میں نئی برطانوی وزیراعظم لزٹرس نے طویل مشاورتی عمل کا خاتمہ کرتے ہوئے واضح طور پر اعلان کیا کہ حکومت، انگلینڈ اور ویلز میں رائج جینڈر ریکگنیشن ایکٹ میں شامل میڈیکل چیک اپ یا طبی تشخیص اور دوسالہ صنفی اصول کو تبدیل نہیں کرے گی۔ کیونکہ ان دونوں شقوں کے باعث ’’اس قانون میں توازن قائم ہے‘‘۔
اس حکومتی اعلان سے برطانیہ میں ایل جی بی ٹی کے علمبرداروں میں کہرام مچ گیا۔ لیکن دو برس گزر جانے کے باوجود برطانوی حکومت نہ صرف اپنے اس فیصلے پر قائم ہے۔ بلکہ نئی وزیراعظم لزٹرس نے ایل جی بی ٹی کے پیروکاروں پر خطرے کی تلوار الگ لٹکادی ہے۔
ایل جی بی ٹی کے سب سے بڑے علمبردار میڈیا برانڈ پنک نیوز نے لکھا کہ ایسی سات وجوہات ہیں، جن کی وجہ سے لزٹرس بطور وزیراعظم ایل جی بی ٹی لوگوں کے لئے خوفناک ثابت ہوسکتی ہیں۔ ان میں سے سب سے خطرناک یہ ہے کہ قیادت کے حصول کی دوڑ کے دوران بھی لزٹرس نے واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ خواتین کے طور پر اپنی شناخت بنانے والے ٹرانس جینڈر، خواتین نہیں ہیں۔ جبکہ خواتین اور مساوات کی وزیر کے طور پر بھی وہ ٹرانس جینڈر افراد کے خلاف رہیں۔ اسی طرح وزیراعظم بنتے ہی لزٹرس نے مختصر وقت کے دوران جینڈر ریکگنیشن ایکٹ میں اصلاحات کو ختم کر دیا۔ پنک نیوز کے بقول آنے والے وقتوں میں برطانیہ میں ایل جی بی ٹی افراد کو مزید سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
برطانیہ میں جہاں ٹرانس جینڈرز سے متعلق قانون میں متنازعہ اصلاحات کے نفاذ میں وہاں کی وزیراعظم دیوار بنی ہوئی ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان میں بھرپور احتجاج کے باوجود متنازعہ ٹرانس جینڈر ایکٹ میں ترمیم پر حکومت آمادہ دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ حالانکہ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے جس ترمیم یعنی جنسی شناخت کی تبدیلی سے پہلے میڈیکل بورڈ کی منظور کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ اسے برطانیہ جیسے بے راہ روی کے شکار ملک نے پہلے ہی اپنے قانون کا حصہ بنالیا تھا اور تمام تر دبائو کے باوجود طبی معائنے کی شق نکالنے سے انکار کر دیا ہے۔
پاکستان میں موجودہ ٹرانس جینڈر ایکٹ کے بارے میں سب سے زیادہ خدشات یہ بیان کئے جارہے ہیں کہ بغیر طبی تشخیص کے نادرا جاکر اپنی صنفی شناخت تبدیل کرانے کے عمل کے نتیجے میں ملک میں ہم جنس پرستی اور ایک ہی جنس کے لوگوں کے مابین شادی کا راستہ کھل گیا ہے۔ مثلاً کوئی بھی لڑکی اب اس ایکٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نادرا جاکر اپنی صنفی شناخت بطور لڑکا کرا سکتی ہے۔ اس بنیاد پر اسے نئی شناخت کے ساتھ شناختی کارڈ، پاسپورٹ، ڈرائیونگ لائسنس اور دیگر قانونی دستاویزات بھی آسانی سے حاصل ہوجائیں گی۔ چونکہ قانونی کاغذوں میں وہ لڑکا ڈکلیئر ہوچکی ہوگی۔ لہٰذا اپنی ہم جنس کسی بھی لڑکی سے شادی بھی کر سکتی ہے۔ اسی طرح کسی بھی مرد یا لڑکے کی جانب سے اپنی صنفی شناخت بطور لڑکی ظاہر کر کے کسی دوسرے لڑکے سے شادی کا دعویدار ہو سکتا ہے۔ اسی لیے زور دیا جارہا ہے کہ اس قانون میں ترمیم کرکے ایک میڈیکل بورڈ کی شق شامل کی جائے۔ تاکہ صنفی شناخت تبدیل کرانے کے خواہش مندوں کو لازمی طبی تشخیص کے عمل سے گزرنا پڑے۔
ٹرانس جینڈر اور خواجہ سرا میں فرق
رپورٹ میں خواجہ سرا کے بجائے دانستہ ٹرانس جینڈر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ کیونکہ دونوں میں واضح فرق ہے۔ اس کی وضاحت معروف فیشن ڈیزائنر ماریہ بی نے بھی کی ہے ۔ ماریہ بی کے مطابق ’’ٹرانس جینڈر‘‘ خواجہ سرا نہیں ہوتے۔ کیونکہ خواجہ سرا قدرتی اور پیدائشی طور پر بعض پیچیدگیوں کے ساتھ جنم لیتے ہیں۔ جنہیں اردو میں مخنث اور انگریزی میں انٹر سیکس کہا جاتا ہے۔ جبکہ ٹرانس جینڈر پیدائشی طور پر مخنث نہیں ہوتے۔ بلکہ وہ ایک نارمل مرد اور عورت کے طور پیدا ہوتے ہیں اور بعد میں اپنی مرضی سے جنس تبدیل کراتے ہیں۔