اسلام آباد( ) معروف دانشو، استادراور کالم نگار عرفان صدیقی کی قانون کرایہ داری کے جعلی مقدمے میں گرفتاری کے3 سال اور 5 ماہ بعد اورسینئر صحافی ابصار عالم کو ایک سال 8 ماہ پہلے اسلام آباد میں دن دیہاڑے گولیاں مارنے، مطیع اللہ جان کے اغوا اور صحافی اسد طور کو گھر میں گھس کرتشدد کا نشانہ بنانے کے واقعے پر قانون حرکت میں آگیا اور اسلام آباد ہائیکورٹ نے جمعہ کو ان چاروں واقعات پر تحقیقات کرانے کا حکم دے دیا ہے۔
اسلام آبادہائی کورٹ کے عزت مآب چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پی ٹی آئی کی راہنما اور سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری کی گرفتاری کے مقدمے کی سماعت کے دوران یہ حکم صادر کیا۔ عدالت نے حکم دیا کہ کمیشن ڈاکٹر شیریں مزاری کے ساتھ عرفان صدیقی ، مطیع اللہ جان، ابصار عالم ، اسد طور کے مقدمات کی تحقیقات کر کے 24 اکتوبر کورپورٹ عدالت میں پیش کرے۔
ڈاکٹر شیریں مزاری کے ساتھ عرفان صدیقی ، مطیع اللہ، ابصار عالم ، اسد طور کے مقدمات کی بھی تحقیقات کر کے 24 اکتوبر کو رپورٹ پیش کریں: عدالت کا حکم
ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے عدالت سے تین ہفتوں کا وقت دینے کی استدعا کی اور موقف اختیار کیا کہ کمیشن کی رپورٹ کابینہ کے سامنے پیش ہونی ہے جس کے لئے وقت درکار ہے۔ عدالت نے کہا کہ یہ صرف ایک کیس نہیں بلکہ اور بھی کیسز شامل ہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کرایہ داری ایکٹ میں کس کو اٹھایا گیا تھا ؟
عرفان صدیقی کو کرایہ داری ایکٹ کے تحت اسلام آباد سے ان کی رہائش گاہ سے اٹھایا گیا تھا: وکیل ایمان مزاری کا جواب
جس پروکیل ایمان مزاری نے عدالت کو بتایا کہ عرفان صدیقی کو کرایہ داری ایکٹ کے تحت اسلام آباد سے ان کی رہائش گاہ سے اٹھایا گیا تھا ۔ عدالت نے کہا کہ عرفان صدیقی کیسز کی بھی تحقیقات کمیشن نے کرنی ہیں۔
یاد رہے کہ وزیراعظم کے سابق مشیر اور موجودہ سینیٹر عرفان صدیقی کو 27 جولائی 2019 کو اسلام آباد میں اُن کی رہائش گاہ سے نصف شب پولیس کی بھاری نفری نے گرفتارکیاتھا ۔ اس موقع پر 75 سال کی عمر میں عرفان صدیقی کو ادویات ہمراہ لیجانے اور کپڑے تبدیل کرنے تک کی اجازت بھی نہیں دی گئی تھی جبکہ دھکم پیل سے عرفان صدیقی کی اہلیہ اور بیٹی بھی زخمی ہوگئی تھیں۔
عرفان صدیقی کو گرفتاری کی اگلی صبح اسسٹنٹ کمشنر مہرین بلوچ نے 14 روزہ ریمانڈ پر جیل بھجوادیا تھا جہاں انہیں قصوری چکی میں خطرناک دہشت گردوں کے سیل میں رکھاگیا تھا۔ اس دوران کئی گھنٹے تک انہیں کھانے پینے سے بھی محروم رکھاگیا تھا۔ سینئر صحافی اور سابق چئیرمین پیمرا بصار عالم کو 20 اپریل 2021کو اسلام آباد میں گولیوں کو نشانہ بنایاگیا تھا جس میں اُن کی جان بچ گئی تھی۔ اسی طرح صحافی مطیع اللہ جان کو 21 جولائی 2020 کوجی 6 اسلام آباد میں اُن کی بیٹی کے سکول کے سامنے سے اغوا کرلیا گیا تھا اور 12 گھنٹے بعد وہ فتح جنگ میں سڑک کنارے ملے تھے۔ 25 مئی 2021 کو صحافی اسد طور کے گھر میں چند نامعلوم افراد گھس گئے تھے اور انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔